فیس بک کا دس سالہ چیلنج 

317

جیسے ہی فیس بک ، ٹوئٹر اور انسٹا گرام پر دس سالہ چیلینج کا اعلان کیا گیا ، اس کے ساتھ ہی اس کی پروموشن کے لیے اقدامات شروع کردیے گئے ۔ مشہور کھلاڑیوں، فلم اسٹارز اور ماڈل کی تصاویر سوشل میڈیا پر جگ مگ کرنے لگیں اور لوگوں کو اس کے بخار میں مبتلا کردیا گیا ۔ یہ بخار اتنا تیز تھا کہ پہلے تین دن میں صرف فیس بک پر ہی 52 لاکھ افراد اپنی تصاویر اپ لوڈ کرچکے تھے ۔ کہا گیا کہ یہ صرف انٹرٹینمنٹ کے لیے پیش کیا گیا ایک آئیڈیا ہے جس کو عوام میں زبردست پذیرائی ملی ۔
باخبر حلقوں میں اس کے بارے میں دوسری ہی اطلاع ہے ۔ ان حلقوں کے مطابق یہ سب کچھ مصنوعی ذہانت کے لیے تیار کیے گئے کمپیوٹروں کو چہرے کے بائیو میٹرک سکھانے اور آزمانے کے لیے کیا گیا ہے ۔ کروڑوں تصاویر کی مدد سے اب آرٹیفیشیل انٹیلی جینس یا مصنوعی ذہانت کے حامل کمپیوٹر یہ سیکھ سکیں گے کہ کس خطے میں اور کس عمر کے گروپ میں دس سال میں چہرے پر کیا تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ۔ اب یہ کمپیوٹر بہ آسانی یہ بتا سکتا ہے کہ یہ شخص آئندہ پانچ برس یا دس بیس برس کے بعد کیسا ہوگا ۔جب کمپیوٹر یہ سب سیکھ چکے گا تو کسی بھی شخص کی تصویر اس کمپیوٹر میں اپ لوڈ کرنے پر اس کی پرانی تصویر بھی نکالی جاسکتی ہے اور مستقبل کی بھی ۔ یہ صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ جس کمپنی کے پاس یہ ڈیٹا ہے ، وہ کسی بھی شخص کے بارے میں یہ جان سکتی ہے کہ آئندہ برسوں میں شخص موٹا ہوگا، گنجا ہوگا یا کسی بیماری میں مبتلا ہوگا اور یہ ڈیٹاسیکڑوں کمپنیوں کو فروخت کرکے اربوں ڈالر کمائے جائیں گے ۔ بات اس سے بھی بڑھ کر ہے ۔ اب کسی بھی شخص کو کہیں پر بھی ٹریک کرنا آسان ہوگا ۔ سیکوریٹی کے نام پر پوری دنیا میں ہر جگہ کیمرے لگائے جارہے ہیں ۔ پاکستان میں بھی سیف سٹی کے نام پر ہر شہر کی ہر سڑک کو کور کیا جارہا ہے ۔
ریاستی تسلط کے سلسلے میں رول ماڈل چین ہے ۔ چین میں 13کروڑ کیمرے لگا دیے گئے ہیں اور 40 کروڑ مزید لگائے جارہے ہیں ۔جگہ جگہ پولیس اہلکار کمپیوٹر آئی لگائے گھوم رہے ہیں اور راہگیروں کو اسکین کررہے ہیں ۔ اب یہ صورتحال ہے کہ ہزاروں کے مجمع میں سے کسی ایک فرد کو بھی بذریعہ کیمرا شناخت کرکے پولیس خاموشی سے گرفتار کرکے لے جاتی ہے ۔ ایسا گزشتہ دنوں میں چین میں ایک کنسرٹ کے دوران ہوا جب کیمرے نے کمپیوٹر کو بتایا کہ ایک مطلوبہ شخص کنسرٹ میں فلاں مقام پر موجود ہے ۔ یہ خبر ملتے ہی چینی پولیس چند منٹوں میں اس شخص کوبھرے مجمع سے خاموشی سے گرفتار کرکے لے جاچکی تھی ۔
اس ڈیٹا کلیکشن کے ذریعے پوری دنیا سے فیس بک کے پاس زبردست ڈیٹا جمع ہوچکا ہے اور ہو رہا ہے اور یہ سب ہم نے خود کیا ہے ۔ سمجھنے کی بات یہ کہ نیو ورلڈ آرڈر کا مطلب ریاست کا فرد پر مکمل کنٹرول ہے ۔ نیو ورلڈ آرڈر میں کسی شخص کو نہ تو سوچنے کی آزادی ہے اور نہ ہی پسند اور ناپسند کی ۔ سرکار چاہتی ہے کہ آپ کے پاس بچے ہوں تو آپ کو پالنے پڑیں گے ۔ سرکار سمجھتی ہے کہ آبادی میں اضافہ ہوچکا ہے اور اب مزید بچے درکار نہیں ہیں تو آپ کچھ بھی کرلیں ، اس کی آپ کو اجازت نہیں ملے گی ۔ آپ کیا کھائیں گے ، کس وقت جاگیں گے اور کیا کام کریں گے ، کب کون سا ٹی وی پروگرام دیکھیں گے اور کس قسم کا مواد پڑھیں گے ، یہ سب فیصلہ سرکار کرے گی ۔ نیو ورلڈ آرڈر میں ہر شخص ہر وقت سرکار کی نگرانی میں ہوگا ۔ اس وقت بھی ہم سوشل میڈیا پر جو کچھ بھی کرتے ہیں ، کس پوسٹ کو لائیک کرتے ہیں ، کس مواد کو شیئر کرتے ہیں ، کسی پوسٹ پر کس قسم کے تبصرے کرتے ہیں اور انٹر نیٹ پر کس قسم کے مواد کو سرچ کرتے ہیں ، اس سب کا ریکارڈ تیار ہو رہا ہے ۔ اگر کوئی شخص مطلوب ہے تو پھر اس کا تجزیہ بھی ہوتا رہتا ہے ۔ اب سپر کمپیوٹر جو مصنوعی ذہانت کا حامل ہے ، وہ بتائے گا کہ فلاں شخص کی حرکات و سکنات مشکوک ہیں اور وہ سرکار کے لیے ناپسندیدہ ہوسکتا ہے ۔ ایسے شخص کو پولیس کے ذریعے فوری لاپتا کردیا جائے گا ۔
ترقی یافتہ ممالک میں ڈیٹا جمع کرنا انتہائی آسان ہے کیوں کہ سب کچھ الیکٹرانک ہے اور سپر کمپیوٹر کی چھلنی میں سے گزر کر ہر فرد کا ذاتی پروفائل تیار ہوتا رہتا ہے مگر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں یہ سب اتنا آسان نہیں ہے کیوں کہ ایک بڑی آبادی یہ سب استعمال نہیں کرتی ۔ اس کے لیے ایک کام تو یہ کیا گیا کہ واٹس اپ کو مقبول بنایا گیا ۔ اب پاکستان جیسے ملک میں بھی ہر فرد کے پاس نہیں تو نئی نسل کے ہر فرد کے پاس اسمارٹ فون ضرور ہے ۔ اس کے ذریعے ڈیٹا جمع کیا جارہا ہے ۔ اس کے علاوہ یو ایس ایڈ جیسی ایجنسیوں کو پاکستان میں داخل کیا گیا ۔ ان کا کام صرف اور صرف ڈیٹا جمع کرنا ہے ۔ یہ ہر زاویے سے اور ہر قسم کا ڈیٹا جمع کرتی ہیں ۔ مثلا ان کے پاس یہ ڈیٹا موجود ہے کہ پاکستان کی پوری ساحلی پٹی پر کتنے گاؤں آباد ہیں ، ان میں مرد و عورت کا تناسب کیا ہے ، بچوں کی تعداد کا تناسب فی خاندان کیا ہے ، ان کا کس مذہبی مسلک یا گروہ سے تعلق ہے اور اگر کوئی حملہ ہوتا ہے تو یہ خود کتنی مزاحمت کرسکتے ہیں ۔
اس قسم کا ڈیٹا پورے پاکستان کی ہر آبادی کے بارے میں اکٹھا کیا گیا ہے ۔ سوشل میڈیا پر بڑھتی آبادی کے خلاف مہم ، مہنگائی، تاخیر سے شادی اور مختلف ویکسین زبردستی لگانے کے نتیجے میں گزشتہ پانچ اور دس سال میں بچوں کی پیدائش میں کتنی کمی آئی ہے ۔ سڑکوں پر بہتا گٹر کا پانی ، پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی ، لوڈ شیڈنگ، بے روزگاری ، مشترکہ خاندان کے ٹوٹنے کے نتیجے میں لوگوں میں جھنجھلاہٹ کتنا بڑھی ہے اور اس جھنجھلاہٹ کو اشتعال میں کس طرح تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔ امن و امان کی خراب صورتحال ، اغوا برائے تاوان، بھتا ، پولیس گردی کے نتیجے میں ایک عام آدمی کی سوچ اور برداشت میں کتنی تبدیلی آئی ہے اور اسے اپنے مفاد کے لیے کسی خاص رخ پر ڈالنے کے لیے کتنا وقت درکار ہوگا ۔ یہ اور اس طرح کے مزید زاویوں سے ڈیٹا جمع کرنے کا عمل ہر وقت جاری ہے ۔ پاکستان میں موجود این جی اوز کے کردار پر نگاہ ڈالیں تو پتا چلے گا کہ ان این جی اوز کا صرف ایک ہی کام ہے اور وہ ہے ڈیٹا جمع کرنا۔
اس ڈیٹا کے جمع کرنے کے خلاف مزاحمت کریں اور اپنے آپ کو پروڈکٹ بننے سے بچائیں ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سوشل میڈیا پر غیر ضروری اور جذباتی کمنٹ سے گریز کریں ۔ کسی کو اپنا ڈیٹا ہر گز نہ دیں اور کوشش کریں کہ سوشل میڈیاکے بجائے انسانوں سے زیادہ سے زیادہ رابطے میں رہیں ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیں اور اپنے آس والوں کو بھی خبردار رکھیں ۔ ہشیار باش ۔