اسٹیٹ بینک آف پاکستان ، سرکاری یا پرائیویٹ

306

بینک آف انگلینڈ کا قیام نیو ورلڈ آرڈر یا ایک شیطانی عالمگیر حکومت کے قیام کا سنگ بنیاد تھا۔ بینک آف انگلینڈ دنیا کا پہلا مرکزی بینک تھا۔ اس کا قیام 1694 میں عمل میں آیا تھا۔ بینک آف انگلینڈ کے قیام کے ساتھ ہی پوری دنیا کو غلام بنانے کے منصوبے پر عمل کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔ نیوٹن نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ اگر مجھے خلا میں کھڑا ہونے اور سلاخ ٹکانے کے لیے جگہ مل جائے تو میں پوری دنیا کو ایک سلاخ (لیور) کی مدد سے اِدھر سے اُدھر کرسکتا ہوں۔ بینک آف انگلینڈ کا قیام بھی کچھ ایسا ہی تھا جس کے بعد پوری دنیا میں وہ سب کچھ ممکن ہوگیا جو اس سے قبل صرف سوچا جاسکتا تھا۔ بینک آف انگلینڈ کے قیام کے لیے عالمی سازش کاروں نے وہی کچھ کیا جو ایک بنانا اسٹیٹ کو قابو میں کرنے کے لیے کیا جاتا ہے یعنی سب سے پہلے ان سازش کاروں نے اپنے کٹھ پتلی غلاموں کو برسراقتدار لانے کے لیے سرمایہ کاری کی۔ جب ان کے یہ کٹھ پتلی غلام حکومت میں آگئے تو قرض دینے کا کھیل شروع کردیا۔ ابتدا میں قرض فراہم کرنے والو ں کا رویہ مودبانہ اور غلامانہ ہوتا تھا۔ جیسے جیسے سلطنت برطانیہ قرض کی دلدل میں پھنستی چلی گئی، ویسے ویسے قرض فراہم کرنے والوں کا رویہ بھی بدلتا چلا گیا اور کچھ عرصے کے بعد ہی وہ اصل حکمراں کا درجہ اختیار کرچکے تھے۔ اب ان کے حکم پر برطانیہ کی فوجیں دوسرے ممالک پر حملہ آور ہورہی تھیں۔ ان حملوں کے اخراجات کے لیے ان کے املا کرائے گئے شرح سود پر قرض حاصل کیا جارہا تھا۔ پھر سود کی ادائیگی کے لیے ان ہی قرض فراہم کرنے والے افراد کے حکم پر روز برطانوی عوام پر ایک نیا ٹیکس لگایا جارہا تھا۔ جیسے جیسے ملک مفتوح ہوتے گئے، مرکزی بینک بھی قائم ہوتے چلے گئے۔ بینک آف انگلینڈ کے قیام کے بعد ان عالمی سازشکاروں کا دوسرا بڑا سنگ میل فیڈرل ریزرو بینک آف امریکا کا قیام تھا۔ بینکاری نظام کے ذریعے پوری دنیا کو غلام بنانے کا عمل پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد بینک آف انٹرنیشنل سیٹلمنٹ کا قیام تھا۔
قرض دینے کا عمل اتنا زبردست اور منظم ہے کہ اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1694 میں بینک آف انگلینڈ کے قیام کے وقت برطانیہ کو دیا جانے والا ابتدائی قرضہ ساڑھے بارہ لاکھ اسٹرلنگ پاؤنڈ کا تھا جو آئندہ چار برس میں بڑھ کر ایک کروڑ 60 لاکھ پاؤنڈ پر پہنچ گیا۔ 1815 میں بینک آف انگلینڈ کے قیام کے تقریباً 20برس کے عرصے میں اس کی مالیت 88 کروڑ 50 لاکھ اسٹرلنگ پاؤنڈ پر پہنچ چکی تھی۔ اس کے بعد جو کچھ بھی ہوا وہ ایک خودکار عمل تھا۔ اس سب کا ذکر تفصیل کے ساتھ میں اپنی کتاب جنگوں کے سوداگر میں کرچکا ہوں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دنیا کے سارے ہی ممالک قرضوں کی دلدل میں پھنسا دیے گئے ہیں اور یہ سارے ممالک ان ملکوں میں قائم مرکزی بینکوں کے ذریعے کنٹرول کیے جارہے ہیں۔ برطانیہ، امریکا، چین، روس، جاپان، سعودی عرب، غرض آپ کسی ملک کا نام لے لیں، کھوج لگائیں تو پتا چلتا ہے کہ جتنا بھاری بھرکم نام ہے، اتنا ہی زیادہ قرض میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس وقت برطانیہ پر قرضے کی مالیت 2.13 ٹریلین اسٹرلنگ پاؤنڈ، امریکا پر قرضے کی مالیت 25.3 ٹریلین ڈالر، چین پر 35.35 ٹریلین یوآن، جاپان پر ایک ہزار 52 ٹریلین ین، سعودی عرب پر 219 ارب ڈالر اور روس پر 13.674 ٹریلین روبل ہے۔ بینک آف انگلینڈ کے قیام کے بعد انقلاب فرانس، انقلاب روس، امریکا میں سول وار، پہلی اور دوسری جنگ عظیم سمیت وہ سب کچھ ممکن ہوگیا جو دنیا کو غلام بنانے کے لیے ضروری تھا۔
اس طویل تمہید کی ضرورت یوں پڑی کہ جب بھی میں کسی سے اس امر کا تذکرہ کرتا ہوں کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان صرف نام کا سرکاری بینک ہے مگر اس کا کنٹرول نجی افراد کے ہاتھ میں ہے اور یہ بھی غیرملکی آقاؤں کے اشارے پر پاکستان میں وہی کھیل کھیلتا ہے جو بینک آف انگلینڈ نے برطانوی عوام کے ساتھ کھیلا تھا تو اکثریت ماننے ہی سے انکار کردیتی ہے اور چند افراد جو اسے تسلیم کرلیتے ہیں وہ حیرت کا اظہار کرتے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کا قیام پاکستان کے قیام کے بعد کسی بھی ادارے کو قائم کرنے کا پہلا عمل تھا۔ 12 مئی 1948 کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے قیام کے لیے آرڈیننس جاری کیا گیا جس پر جون میں عمل درامد ہوا اور اسٹیٹ بینک نے باقاعدہ کام یکم جولائی 1948 سے شروع کیا۔ قیام پاکستان سے قبل انگریزوں نے اس مقصد کے لیے ریزرو بینک آف انڈیا قائم کیا ہوا تھا۔ بھارت کا مرکزی بینک اب بھی ریزرو بینک آف انڈیا ہی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے قیام سے قبل تک ریزرو بینک آف انڈیا ہی پاکستان کے مرکزی بینک کے فرائض سر انجام دے رہا تھا تاہم پاکستان نے اپنے سرکاری امور کی ذمے داری امپریل بینک کے سپرد کی ہوئی تھی۔ قیام کے بعد اسٹیٹ بینک نے ریزرو بینک آف انڈیا کی جگہ لے لی جبکہ نیشنل بینک آف پاکستان نے امپریل بینک کی جگہ ریاستی ٹیکس کی وصولی اور دیگر امور کی انجام دہی شروع کردی۔
اسٹیٹ بینک کا اردو ترجمہ ریاستی بینک ہی بنتا ہے اور اس سے یہ تاثر بھی یہی ملتا ہے کہ یہ نجی شعبے میں قائم ہونے کے بجائے ایک مکمل سرکاری بینک ہی ہوگا۔ اسٹیٹ بینک کیوں کر سرکاری بینک نہیں ہے۔ اس کے بارے میں شواہد آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔