اسٹیٹ بینک آف پاکستان،سرکاری یا پرائیویٹ 

263

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے قیام کے لیے آرڈیننس 12 مئی 1948 کو جاری ہوا تھا اور بینک نے یکم جولائی 1948 سے باقاعدہ کام شروع کردیا تھا تاہم اسے باقاعدہ آئینی حیثیت 1956 میں اسمبلی سے پاس کیے جانے والے ایکٹ کی صورت میں ملی۔ اسٹیٹ بینک 1956 ایکٹ ہی وہ دستاویز ہے جس کی مدد سے ہم اسٹیٹ بینک کے ڈھانچے کو سمجھ سکتے ہیں۔ گو کہ اس ایکٹ میں اب تک کئی ترامیم کی جاچکی ہیں تاہم یہی ایکٹ ابھی تک اسٹیٹ بینک کی آئینی اساس ہے۔
اس ایکٹ کے صفحہ 3 پر دوسرے باب میں شق 4 میں بینک کے اداشدہ سرمائے کا ذکر ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ بینک کا اصل ادا شدہ سرمایہ تین کروڑ روپے ہوگا جو ایک سو روپے فی شیئر کے حساب سے تین لاکھ شیئرز میں منقسم ہوگا۔ اس میں سے حکومت کا کم از کم حصہ 51 فی صد ہوگا جبکہ بقیہ پبلک کا ہوگا۔ اس ادا شدہ سرمایہ کو سنٹرل بورڈ کی منظوری سے بڑھایا بھی جاسکتا ہے تاہم اضافہ کیے جانے والے سرمائے میں بھی وفاقی حکومت کا حصہ کم از کم 51 فی صد ہوگا۔ اسی طرح اس باب میں اس امر کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ کس طرح حصص کی برائے نام قیمت (nominal value) شیئر ہولڈرز کے رجسٹر میں درج کی جائے گی اور یہ رجسٹر اسٹیٹ بینک کی ملکیت ہوگا۔ اسی باب کی شق 7 میں شیئر ہولڈرز کے رجسٹر اور ان کے بارے میں تفصیلات دی گئی ہیں۔ ان شرائط کے مطابق شیئر ہولڈر پاکستان کا کوئی بھی شہری ہوسکتا ہے۔ پاکستانی شہری کے علاوہ وہ شخص جسے پاکستان میں رہنے اور کاروبار کرنے کی اجازت ہو، وہ بھی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے شیئر کا مالک ہوسکتا ہے۔ بینک شیئر ہولڈر بیرون ملک قائم کوئی کارپوریشن یا کمپنی بھی ہوسکتی ہے تاہم اس کمپنی کا برانچ آفس پاکستان میں ہونا ضروری ہے۔
اسی ایکٹ کے صفحہ 2 پر شق 2 کی کلاز h میں بتایا گیا ہے کہ اجلاس عام سے مراد شیئر ہولڈرز کا اجلاس ہے جو اسٹیٹ بینک کے امور کے سلسلے میں بلایا جائے۔ یہ ایکٹ 1956 میں منظور کیا گیا تھا تاہم بعد میں اس میں متعدد تبدیلیاں کی گئیں۔ کہا گیا کہ 1974 میں بھٹو کی جانب سے قومیانے کی پالیسی کے نتیجے میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی حیثیت بھی تبدیل ہوگئی تھی اور یہ مکمل طور پر پاکستانی ملکیت میں آگیا تھا۔ مگر جب ہم 1956 کے ترمیم شدہ ایکٹ پڑھتے ہیں تو ہمیں شیئر ہولڈر، اجلاس عام، ادا شدہ سرمایہ وغیرہ وغیرہ کی شقوں میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی ہے۔ 2012 تک کے ترمیم شدہ ایکٹ تک میں ایسا ہی درج ہے۔ 2014 میں کی گئی ترامیم میں بینک کے ادا شدہ سرمایہ کی مالیت تین کروڑ روپے سے بڑھا کر دس کروڑ روپے کردی گئی ہے اور اس کی شقوں 5 6 اور 7 کو ہٹادیا گیا ہے۔ ان شقوں کو ہٹانے کے لیے omission کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے مطلب یہ ہے کہ انہیں ختم نہیں کیا گیا ہے بلکہ انہیں چھپا دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسٹیٹ بینک کبھی بھی کلی طور پر حکومت پاکستان کی ملکیت میں نہیں رہا۔ 2014 میں کی جانے والی مذکورہ ترمیم کے بعد بھی اسٹیٹ بینک کے 2016 تک کے مالیاتی اسٹیٹمنٹ دیکھیں تو اس میں بھی یہی لکھا جاتا رہا Independent Auditors report to the shareholders تاہم 2017 سے اس میں تبدیلی کردی گئی اور اب لکھا جاتا ہے Indepentdent Auditors Report – To The Board of Directors and State Bank of Pakistan تبدیل شدہ عبارت پر غور کریں تو دیکھیں گے کہ اس میں To The Board of Directors of SBP نہیں لکھا ہے بلکہ and لکھ کر بورڈ آف ڈائریکٹرز اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو علیحدہ علیحدہ وجود تسلیم کیا گیا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے مراد یہاں پر اس کے خفیہ شیئر ہولڈرز ہی ہیں۔
یہ بات تو ہم دیکھ چکے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان مکمل طور پر سرکار کا نہیں ہے بلکہ اس کے دیگر حصہ دار یا شیئر ہولڈر بھی ہیں۔ حکومت پاکستان کے علاوہ اسٹیٹ بینک کے یہ دیگر شیئر ہولڈر آخر ہیں کون۔ یہ دیکھنے نکلیں تو اس کا کوئی سرا نہیں ملتا ہے۔ اول تو کوئی یہ تسلیم ہی نہیں کرتا کہ اسٹیٹ بینک میں کوئی شیئر ہولڈر ہے یا کبھی رہا ہے۔ دستاویزات کی مدد سے ان شیئر ہولڈروں کو ڈھونڈھنے کی کوشش کی جائے تو ہر طرف اس امر کا خاص التزام نظر آتا ہے کہ ان شیئر ہولڈروں کی شناخت خفیہ ہی رہے۔ یہ شیئر ہولڈر اتنے زیادہ خفیہ ہیں کہ خود اسٹیٹ بینک کے ڈائریکٹر بھی ان سے لاعلم ہیں۔ جب ان ڈائریکٹروں سے اس بارے میں بات کی جائے تو وہ اس امر سے ہی انکار کردیتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک کے شیئر ہولڈر بھی ہیں۔ وزارت خزانہ میں بات کی جائے تو وہ پورے یقین سے کہتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک مکمل طور پر حکومت پاکستان کی ملکیت ہے۔ جب انہیں یہ بتانے کی کوشش کی جائے کہ جناب اس کے شیئر ہولڈر ہیں تو وہ سامنے والے کو اس طرح سے دیکھتے ہیں کہ جیسے وہ کوئی آسمانی مخلوق ہے۔
ان شیئر ہولڈروں کے بارے میں جوائنٹ اسٹاک کمپنیز کا اصول کام کرتا ہے۔ آپ کسی طرح یہ جان بھی لیں کہ اس کے شیئر ہولڈر کون ہیں تو صرف اتنا ہی جان پائیں گے کہ یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں۔ ان کمپنیوں کی کھوج میں نکلیں گے تو چیف ایگزیکٹو آفیسر، چیف آپریٹنگ آفیسر، چیف فنانشل آفیسر قسم کی مخلوق تو مل جائے گی جو سارے کے سارے اس کمپنی کے تنخواہ دار ملازم ہوں گے مگر اس کے اصل مالکان کا کبھی پتا نہیں چلے گا۔ یہ کمپنی کیمین آئی لینڈ جیسے جزائر میں رجسٹر ہوگی تاکہ اس کے اصل مالکان ہمیشہ صیغہ راز میں رہیں۔
یہ صورتحال صرف اسٹیٹ بینک آف پاکستان ہی کے ساتھ نہیں ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک کے مرکزی بینک کی جانچ کریں تو یہی صورتحال نظر آئے گی۔ یہ مرکزی بینک ہی ہیں جو کسی بھی ملک کی معاشی صورتحال کو کنٹرول کرتے ہیں۔
باقی صفحہ7نمبر1
مسعود انور
کاغذی نوٹ چھاپ کر اُس ملک کی حکومت اور عوام کو مقروض بناتے ہیں اور پھر قرض کی ادائیگی کے نام پر روز ایک نیا ٹیکس لگا دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ ملک ایک ایسے گرداب میں ہمیشہ کے لیے پھنس جاتا ہے جس سے اس نظام میں رہتے ہوئے نکلنا ناممکن ہے۔
پاکستان جب قائم ہوا تھا اس وقت ایک پاکستانی روپیہ ایک امریکی ڈالر کے برابر تھا۔ 60 کی دہائی تک بھی صورتحال قابو میں تھی۔ اس کے بعد ایوب خان کے دور میں ترقی کے نام پر پاکستان کو ٹریپ کرلیا گیا اور پاکستان قرضوں کی دلدل میں پھنستا ہی چلا گیا۔ پھر فوجی حکومتوں کے سائے میں پروان چڑھنے والے بدعنوان حکمرانوں اور ان کے ساتھ ساتھ نااہل اور بدعنوان بیوروکریسی نے کمیشن کے وہ داؤ کھیلے کہ ملک پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں ہی گرتا چلا گیا۔
پاکستان کی معاشی اساس کے ساتھ کیا کھلواڑ کیا گیا۔ اس پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔