ملک میں انڈو کرائن غدود خصوصاً تھائی رائیڈ گلینڈ کے مریضوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، ڈاکٹر سیمی جمالی

577

کراچی(اسٹاف رپورٹر) جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (جناح اسپتال)کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر سیمی جمالی نے کہا ہے کہ ملک میں اینڈو کرائن غدود کی بیماریوں خصوصاً تھائی رائیڈ گلینڈ کے مریضوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، اسپتال میں گزشتہ برسوں میں آٹھ ہزار سے زائد تھائی رائیڈ کے کینسر کے آپریشن کیے گئے، ملک میں خاص طور پر تھائی رائیڈ گلینڈ کینسرکے مریضوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے، جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر اس وقت پاکستان کا واحد سرکاری اسپتال ہے جہاں پر انڈو کرائن غدود کی سرجری کی سہولت میسر ہے جہاں پر نہ صرف سندھ بلکہ بلوچستان، خیبر پختون خوا اور اسلام آباد تک سے مریض آ رہے ہیں۔
وہ جناح اسپتال میں چھٹی سالانہ سرجیکل ویک فار انڈو کرائن ڈیزیز سے متعلق پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں۔ اس موقع پر معروف کولوریکٹل سرجن شمیم قریشی، پروفیسر آف سرجری اور چھٹے انڈو کرائن ویک کے سیکریٹری پروفیسر نسیم بلوچ، ڈین جناح اسپتال پروفیسر اقبال آفریدی، انڈو کرائنالوجسٹ ڈاکٹر عروج نے بھی خطاب کیا۔ ڈاکٹر سیمی جمالی کا کہنا تھا کہ جناح اسپتال کے صرف ایک یونٹ میں گزشتہ چند برسوں میں تھائی رائیڈ کینسر کے8 ہزار مریضوں کے آپریشن کیے گئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اسپتال میں25 سے28 فروری تک انڈوکرائن پر ایک تحقیقی پروگرام کیا جا رہا ہے جس میں دنیا بھر سے ماہرین طب شرکت کر رہے ہیں۔ پروگرام کا بنیادی مقصد اسپتال کے ماہرین طب کو جدت کے ساتھ علاج سے روشناس کرانا ہے۔
ڈاکٹر سیمی جمالی نے بتایا کہ اسپتال میں انڈوکرائن ڈیزیز کے حوالے سے چھٹا سالانہ سرجیکل ویک پیر سے شروع ہو جائے گا جس میں امریکا اور برطانیہ سے دو ماہر ڈاکٹر جن میں ڈاکٹر صبا بلاس اوبرا مینیم اور ڈاکٹر کیپال پٹیل شامل ہیں پاکستان تشریف لائیں گے اور پاکستانی مریضوں کو تھائی رائیڈ گلینڈ کے کینسر کے حوالے سے تربیت فراہم کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر سے ماہر ترین ڈاکٹرز اور سرجنز کو جناح اسپتال میں بلایا جاتا ہے اور پاکستانی ڈاکٹروں کو تربیت دلائی جاتی ہے جس کی وجہ سے جناح اسپتال اس وقت پاکستان کا واحد اسپتال ہے جہاں پر انڈوکرائن سرجریز یا انڈوکرائن غدود کے آپریشن کیے جاتے ہیں۔
کانفرنس کے سیکریٹری اور معروف سرجن پروفیسر نسیم بلوچ نے بتایا کہ وہ گزشتہ چھ برس سے فرانس، امریکا، برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک سے ماہرین کو بلا رہے ہیں جو لائیو سرجریز کرتے ہیں جسے بیک وقت 500 سے زیادہ پاکستانی ڈاکٹرز دیکھتے ہیں اور اس سے سیکھتے ہیں اس کے لیے ڈاکٹروں کی بڑی تعداد پورے پاکستان سے کراچی آ کر تربیت حاصل کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تھائی رائیڈ کینسر کے مریضوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کے لیے اب جناح اسپتال میں ایک علیحدہ وارڈ بنا دیا گیا ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ روزانہ 40 سے 50 مریض تھائی رائیڈ کی مختلف بیماریوں اور متعلقہ پیچیدہ امراض میں مبتلا ہوتے ہیں، وہ او پی ڈی میں آتے ہیں اور ان مریضوں کا تعلق نہ صرف کراچی اور سندھ بلکہ ملک کے دیگر صوبوں بلوچستان، خیبر پختون خوا اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تھائی رائیڈ کینسر کے سب سے زیادہ مریض پاکستان اٹامک انرجی کے نیوکلیئر میڈیسن اور ریڈیو تھراپی سینٹرز کے ذریعے جناح آپریشن کے لیے بھیجے جاتے ہیں، تھائی رائیڈ کینسر کا صرف علاج آپریشن سے ممکن ہے اور جناح اسپتال سرکاری طور پر واحد اسپتال ہے جہاں پر یہ آپریشن کیے جاتے ہیں۔
پروفیسر نسیم بلوچ نے مزید کہا کہ اگر تھائی رائیڈ غدود کی بیماریوں کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو کینسر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، جناح اسپتال میں مریض کو اس وقت آتے ہیں جب ان کا مرض بہت پیچیدہ ہو چکا ہوتا ہے۔ انہوں نے مریضوں کو مشورہ دیا کہ وہ حکیموں، سنیاسی بابوں اور غیر طبی افراد کے پاس جانے کے بجائے ماہرین سے رجوع کریں اور اگر ان کو تھائی رائڈ گلینڈ کے آپریشن کا مشورہ دیا جاتا ہے تو اس پر عمل کریں۔ معروف کولوریکٹل سرجن پروفیسر شمیم قریشی کا کہنا تھا کہ تھائی رائیڈ گلینڈ کے کینسر کے مریض آپریشن کے نتیجے میں عام افراد کی طرح زندگی بسر کر سکتے ہیں کیوں کہ اس سرجری کے بعد مریض مکمل طور پر صحت یاب ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹر کوثر عامر نے بتایا کہ مردوں کی نسبت خواتین میں زیادہ گلے کے سرطان کے کیسز سامنے آ رہے ہیں، تھائی رائیڈ کے مرض کےا علاج میں تاخیر کینسر کی طرف لے جاتی ہے۔ ڈین جناح اسپتال پروفیسر اقبال آفریدی کا کہنا تھا کہ تھائی رائیڈ غدود کی بیماریوں سے نفسیاتی الجھنیں بھی پیدا ہوتی ہیں جس کا علاج کروانا چاہیے۔ اسپتال کی انڈوکرائنالوجسٹ ڈاکٹر عروج کا کہنا تھا کہ گلے کے غدود میں سوجن، نگلنے میں مشکل، گھبراہٹ، وزن کم ہونا، آنکھوں کا باہر نکل آنا ایسی علامات ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے اور ماہر انڈوکرائنالوجسٹ سے رابطہ کرنا چاہیے۔