دم پر پاؤں مت رکھو

270

 

حبیب الرحمن

قومی احتساب بیورو (نیب) نے اسپیکرسندھ اسمبلی اور پیپلز پارٹی کے رہنما آغا سراج درانی کو کرپشن کے الزام میں گرفتار کرلیا جس پر سابق صدر مملکت اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے سخت ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو جتنا وقت دینا تھا دے دیا اور اب مزید وقت نہیں دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مولانا فضل الرحمن قدم بڑھائیں ہم ساتھ ہیں جب کہ پارٹی سربراہ بلاول نے اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آغا سراج درانی کی گرفتاری کا نوٹس لیں۔ احتساب کا عمل شروع ہو چکا ہے اور اب اس کا دائرہ وسیع ہوتا چلا جارہا ہے۔ گو کہ ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہو سکی ہے کہ کیا یہ عمل مخالف سیاسی جماعتوں یا سیاست سے باہر کے لوگوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے گا یا نہیں لیکن پھر بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایک عمل شروع ہو چکا ہے تو کبھی نہ کبھی غیر سیاسی افراد بھی اس کی گرفت میں آ ہی جائیں گے۔ دیکھا گیا ہے کہ پاکستان میں ہمیشہ مخالفین یا سیاسی رہنما ہی ہر قسم کے عتاب کا شکار نظر آئے ہیں اور احتساب سے ہٹ کر بھی اگر اعلیٰ عدالتوں نے کچھ مقتدر ہستیوں کے خلاف صاف صاف اور بہت واضح انداز میں کچھ فیصلے سنائے بھی ہوں اور وہ زبانی ہی نہیں تحریری بھی ہوں تو ان پر ایسے کان بند کر لیے جاتے رہے ہیں جیسے سنا ہی نہ ہو۔ اپنے فیصلوں پر عدالتیں مڑ کر دیکھنا تک گوارہ نہیں کرتیں بلکہ وہ محکمے جن کو ان فیصلوں پر عمل درآمد کرنے کے لیے کہا جاتا رہا ہے وہ سب پیروں میں مہندی لگا کر، ہونٹوں کو سی کر اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں باندھ کر ایسی گہری نیند سوجاتے ہیں جیسے اب اگر آنکھ کھولیں گے بھی تو میدان حشر ہی میں کھولیں گے۔ اصغر خان کیس کا حالیہ فیصلہ اس کی سب سے بڑی مثال ہے جس کی کوئی نظیر دنیا کی کسی بھی عدالت میں نہیں مل سکتی۔ آپریشن توڑ پھوڑ کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ بھی عدالت کے حکم ہی کی وجہ سے ایسا چل نکلا ہے جس نے نہ جانے کتنے خاندانوں کے سروں سے چھتیں چھین لی ہیں اور کتنے خاندانوں کو فاقہ کشی اور بھیک مانگنے پر مجبور کردیا ہے لیکن اسی عدالت نے جب عسکری علاقوں میں بنی تجاوزات کو ڈھانے کا حکم دیا تو ایک ایسی پراسرار خاموشی چھا گئی جیسے اگر ان کو ڈھادینے کا عمل شروع کیا گیا تو ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوگا۔ اس پر مستزاد یہ ہے کہ عدالت بھی احکامات دینے کے بعد ایسے منہ سی کر بیٹھ گئی جیسے اس قسم کے احکامات ان کے منہ اور قلم سے سہواً جاری ہوگئے ہیں جبکہ عوام کی ہر قسم کی پراپرٹی کے متعلق بار بار کی تاکید ہی نہیں جاری ہو رہی بلکہ حکم عدولی کی صورت میں متعلقہ اداروں اور محکموں کے خلاف سخت ایکشن لینے کی ہدایات بھی مسلسل جاری کی جارہی ہیں۔ یہی وہ رویہ ہے جس کی وجہ سے ایسے تمام راست اقدامات جن سے لوٹی ہوئی دولت واپس لائی اور ناجائز قبضوں سے نجات دلاکر عوام کی زندگی آسان بنائی جا سکے تنازع کا شکار ہوجاتے ہیں اور عوام میں پزیرائی حاصل نہیں کر پاتے۔
پاناما میں ساڑھے چارسو افراد کے نام شامل تھے جن میں جج بھی تھے، سیاسی اور سماجی شخصیات کے علاوہ بہت سارے اعلیٰ عسکری افسران کے نام بھی تھے لیکن اگر پابند سلاسل کچھ شخصیات ہوئیں تو وہ سیاسی شخصیات ہی ہوئیں اور وہ بھی وہ شخصیات جو عسکری مداخلتوں کے خلاف رہی تھیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سیاسی جماعتوں میں بھی آپس میں اتنی خلیجیں ہیں کہ جن کا پٹ جانا یا پاٹ دیے جانا مشکل ہی نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب تک ان کے اپنے آپ پر کوئی شامت نہیں آتی وہ سب اس فریب میں مبتلا رہتے ہیں کہ ’’ابھی دلی بہت دور ہے‘‘۔ اس کی تازہ ترین مثال سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی کی نیب گرفتاری کے بعد پی پی پی کے آصف علی زرداری کا بیان ہے جس میں انہوں نے اس بات کا کھل کر اظہار کردیا ہے کہ ہم نے جتنی مہلت پی ٹی آئی کی حکومت کو دینا تھی دیدی اور اب ان کے اقتدار کو مزید لمبا نہیں ہونے دیں گے۔
یہاں میں ایک سوال یہ اٹھانا چاہوں گا کہ کیا یہ وہی جماعت نہیں جو لسانی قتل عام میں شریک رہی ہے۔ سندھ سے سارے غیر سندھیوں کے خون سے کیا اس کے ہاتھ رنگے ہوئے نہیں ہیں۔ کیا اسی پارٹی نے سندھ کے 22 شہروں کو خاکستر کرکے نہیں رکھ دیا تھا۔ کیا 27 دسمبر تا 30 دسمبر 2007 کو گوادر سے لیکر خیبر تک کھرب ہا کھرب کی پراپرٹی کو راکھ کا ڈھیر بنانے کے علاوہ انسانی جان و مال و عزت و آبروکو تار تار نہیں کیا تھا۔ اگر اس سب کے باوجود وہ پاکستان میں سیاسی پارٹی ہی سمجھی جاتی رہی، اس کو کالعدم قرار نہیں دیا گیا اور اسی کے لیڈر کو ملک کا صدر بھی بنادیا گیا تو پھر مجرم پارٹی ہوئی یا پاکستان کا آئین و قانون، عدالتیں اور ادارے؟۔ تفصیلات کے مطابق اسپیکر سندھ اسمبلی کو اسلام آباد کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل سے گرفتار کیا گیا۔ نیب حکام کے مطابق ملزم کی گرفتاری انٹیلی جنس معلومات پر نیب کراچی کی ٹیم نے راولپنڈی اور اسلام آباد کی ٹیم کی معاونت سے کی۔ ملزم کو احتساب عدالت میں پیش کر کے 3 روز کا راہداری ریمانڈ لے لیا گیا ہے جس کے بعد کراچی منتقل کیا گیا۔ نیب حکام کے مطابق آغا سراج درانی کو اثاثوں کے ریفرنس میں نیب کراچی کی ٹیم نے متعدد بار طلب کیا تھا لیکن وہ خود پیش ہو رہے تھے اور نہ ہی کوئی وضاحتی بیان دے رہے تھے، فی الوقت ملزم کی گرفتاری آمدن سے زیادہ اثاثوں کے ریفرنس میں ہوئی ہے جبکہ غیر قانونی بھرتیوں اور قومی خزانے میں مبینہ طور پر گھپلوں سے متعلق تحقیقات جاری ہیں۔ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں لیکن کیا پی پی پی دور کے خون خرابے، عزتوں کی پامالی، کھرب ہا کھرب روپوں کی جائداد کی بربادی چند لاکھ روپوں کی خورد برد کے آگے کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی؟۔ کیا انسانی خون چند سکوں سے بھی ارزاں ہے؟۔ کیا لوگوں کی زندگی پھر کی جمع پونجی کو دھواں بنا کر اڑا دینا اس ملک میں کوئی جرم نہیں؟۔
اگر پی پی کے ماضی میں جھانک کر دیکھا جائے تو وہ بہت ہی خون آشام اور بھیانک رہا ہے۔ اس کے ماضی کو سامنے رکھا جائے تو ان کے کھربوں روپوں کی خوردبرد رائی برابر بھی نہیں۔ ان کی پوری قیادت اس قابل ہے کہ اسے زندہ رہنے اور پاکستان میں سیاست کرنے کا کوئی حق ہے ہی نہیں۔ کراچی میں جاری کئی دہائیوں سے
ہونے والے ظلم و ستم پر اور خود ان کے وزیردفاع ’’نصیر اللہ بابر‘‘ کی کراچی کش کارروائیاں تاریخ کا ایک حصہ ہیں۔ ان کارروائیوں کو خود کئی ریٹائرڈ آرمی آفیسرز ظلم قرار دیتے آئے ہیں جبکہ مسلم لیگ ق کے چودھری شجاعت ان 360 افراد کو مارگلہ ہل میں ماردیے جانے کا اقرار کرچکے ہیں جن کو کراچی سے گرفتار کرکے اسلام آباد لایا گیا تھا۔ اگر پی پی پی کو اپنے ہی صوبے میں ہونے والے اس قتل عام پر کوئی دکھ کبھی نہیں ہوا تو اتنی سی معمولی بات پر کہ کسی کو نیب گرفتار کرکے اس سے آمدنی اور اخراجات طلب کرے، چیخ و پکار مچانا اور حکومت کو گرادینے کی دھمکیوں پر اتر آنا کیا مناسب ردعمل ہے؟۔ کیا اس کو انصاف کہا جاسکتا ہے؟۔ آصف زرداری نے کہا کہ سراج درانی کو گرفتار کرکے جمہوریت کو چیلنج کیا گیا ہے۔ اگر کسی فرد کو اس لیے طلب کیا جائے کہ وہ اپنے آمد و خرچ کا حساب پیش کرے تو ایک ایسا فرد جو ملک کا صدر بھی رہ چکا ہو اس کے منہ سے یہ کہنا کہ ایک ملزم کی گرفتاری جمہوریت کے لیے چیلنج ہے تو کیا یہ بات اتنے بڑے فرد کے منہ سے اچھی لگتی ہے؟۔ ملک میں ہر قسم کے ادارے موجود ہیں۔ ہر قسم کے غیرآئینی، غیر قانونی اور مجرمانہ حرکتوں کے مرتکب افراد کے خلاف راست اقدام اٹھانے والے ادارے موجود ہیں لیکن دیکھا گیا ہے کہ یہاں کسی کے خلاف بھی قانون کے مطابق کارروائی عمل میں نہیں آتی جس کی سب سے بڑی مثال ایک ایسی پارٹی جس نے پورے پاکستان کو آگ اور خون میں نہلادیا تھا اس پارٹی اور اس کے لیڈر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کے بجائے اس کو ملک کا صدر بنادیا گیا۔ جس ملک میں عدل و انصاف کا یہ عالم ہو وہاں چند سکوں کی خورد برد کرنے والوں کے خلاف کسی ادارے کا حرکت میں آنا ایک تماشا ہی لگتا ہے۔ جب کسی بڑے سے بڑے جرم پر بھی قانون حرکت میں نہیں آئے گا تو پھر یہی کچھ ہوتا رہے گا جو ہو رہا ہے۔ بس ہوگا یہ کہ سب ٹشو پیپر بنے رہیں گے اور استعمال کے بعد ڈسٹ بن میں پھینکے جاتے رہیں گے لیکن ایک ایک کرکے، اور جس جس کی دم پر پاؤں پڑتا رہے گا وہ چیخ و پکار مچاتا نظر آئے گا لیکن کوئی اس لیے نہیں بولے گا کہ وہ اپنی دم دبا کر اپنی دم پر قانون کا پاؤں پڑنے سے بچانے میں مصروف ہوگا۔