نریندر مودی سے عمران خان کی توقعات

294

گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے بھارت کے بدترین وزیراعظم اور سیکڑوں مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی کی عام انتخابات میں کامیابی کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ نریندر مودی کامیاب ہوگئے تو مسئلہ کشمیر حل ہونے کا امکان بڑھ جائے گا۔ یہ گمان انہیں جانے کیسے ہوگیا لیکن عمران خان کچھ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ بولنے سے پہلے سوچنے کے قائل نہیں بلکہ بعد میں بھی نہیں سوچتے۔ بھارت میں عام انتخابات شروع ہوگئے ہیں اور عمران خان نریندر مودی کی کامیابی کی آس لگائے ہوئے ہیں۔ اگر یہی بات سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہی ہوتی تو پوری تحریک انصاف ’’مودی کا جو یار ہے، غدار ہے، غدار ہے‘‘ کے نعرے لگا رہی ہوتی۔ مگر اب سب خاموش ہیں، البتہ بھارت میں مودی کے حق میں عمران خان کے بیان پر حزب اختلاف نے شور مچانا شروع کردیا ہے اور بی جے پی کی مقابل جماعت کانگریس کا کہنا ہے کہ پاکستانی وزیراعظم مودی کا یار بن چکا ہے اور بی جے پی کو ووٹ دینا پاکستان کو ووٹ دینے کے مترادف ہوگا۔ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں نے بھی عمران خان کے بیان پر احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے مودی سے اتحاد کرلیا ہے، پہلے مودی کو نواز شریف سے پیار تھا اب عمران خان ان کا چہیتا بن گیا ہے۔ یعنی پہلے جو بات نواز شریف کے بارے میں عمران خان کہتے تھے اب وہی بات بھارت کی سیاسی جماعتیں ان کے بارے میں کہہ رہی ہیں۔ عمران خان نے کس بنیاد پر مودی سے توقعات باندھ لیں کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کردیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ عمران خان مودی کے ماضی اور حال سے واقف ہی نہیں ہیں۔ وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے نریندر مودی ہی نے 2002ء میں گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام کروایا تھا اور گجرات کا قصاب کہلایا تھا۔ اسی بنیاد پر امریکا نے مودی کو دہشت گرد قرار دے کر ویزا دینے سے انکار کردیا تھا۔
جس وقت عمران خان مودی سے آس باندھ رہے تھے اسی دن وہ اٹوٹ انگ کا راگ الاپ رہے تھے اور ایک بار پھر برسراقتدار آکر نریندر مودی بھارتی آئین میں کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرکے اس مقبوضہ علاقے کو بھارت کی ایک ریاست کا درجہ دینے کی کوشش کریں گے۔ ان کے ناپاک عزائم میں صرف کشمیری مجاہدین رکاوٹ ہیں‘ پاکستان کے حکمران تو ذہنی طور پر ہتھیار ڈال چکے۔ گزشتہ دنوں نریندر مودی نے فرمایا ہے کہ پنڈت نہرو نے کشمیر کے معاملے میں بہت بڑی غلطی کی۔ اس کے ساتھ بھی وہی کچھ کرنا چاہیے تھا جو حیدر آباد (دکن) اور جوناگڑھ کے ساتھ کیا گیا۔ یعنی طاقت کے بل پر قبضہ۔ یہ ایک المیہ ہے کہ ریاست جونا گڑھ پر قبضہ سرشاہنواز بھٹو نے کروایا۔ جب نواب جونا گڑھ نے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا تو ان کے دیوان شاہنواز بھٹو نے فوری طور پر بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو کو مطلع کیا کہ جلدی کرو، چناں چہ نہرو نے وہاں فوج اُتار دی۔ شاہنواز بھٹو کی ہمدردیاں بھارت اور جونا گڑھ کی ہندو آبادی کے ساتھ تھیں۔ تقسیم ہند کے فارمولے میں طے پایا تھا کہ ریاستیں پاکستان اور بھارت میں سے کسی کے ساتھ بھی الحاق کرسکتی ہیں اور جو آزاد رہنا چاہیں وہ آزاد رہ سکتی ہیں۔ حیدر آباد کی ریاست نے آزاد رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ گوکہ سید مودودیؒ نے نظام کو مشورہ دیا تھا کہ ایسا ممکن نہیں ہوگا۔ چناں چہ بھارتی حکومت سے کوئی آبرو مندانہ سمجھوتا کرلیا جائے۔ ریاست حیدر آباد، برطانیہ اور فرانس کے مجموعی رقبے سے بھی بڑی تھی جس کا سکہ اپنا تھا، ریلوے لائن اور ڈاک کا نظام بھی اپنا تھا، مگر یہ چاروں طرف سے گھری ہوئی تھی۔ قائد اعظم کے انتقال کے بعد 1949ء کے آغاز میں بھارتی حکومت نے پولیس ایکشن کے نام پر فوج اتار دی اور ریاست پر قبضہ کرلیا۔
نریندر مودی کا اشارہ اسی فوجی جارحیت کی طرف تھا۔ لیکن مقبوضہ کشمیر میں تو 1989ء سے کئی لاکھ بھارتی فوجی مسلط ہیں اور بھارتی حکومت بے بس ہے۔ 1990ء سے لے کر اب تک 70 ہزار سے زیادہ کشمیری شہید ہوچکے ہیں، ہزاروں لاپتا ہیں، لاکھوں پر تشدد کیا گیا اور سیکڑوں لوگوں کو پیلٹ گن سے اپاہج، معذور اور اندھا بنادیا گیا۔ یہ اعداد و شمار بھارتی خاتون صحافی ارون دھتی رائے نے اپنے تجزیے میں پیش کیے ہیں۔ نریندر مودی الیکشن جیتنے کے لیے پاکستان پر حملے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ پورے بھارت میں مسلمانوں کی زندگی عذاب کر رکھی ہے۔ پلوامہ حملے کا الزام لگا کر پاکستان پر فضائی حملے کی کوشش کرکے منہ کی کھا چکا ہے۔ عمران خان کے وزیر خارجہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ نریندر مودی پاکستان پر حملہ کرسکتا ہے۔ جمعہ ہی کے اخبار میں پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ’’بھارتی حملے کی ٹھوس رپورٹ تھی اس لیے وزیر خارجہ نے بیان دیا، خطرہ اب بھی ہے‘‘۔ عمران خان اسی نریندر مودی کے لیے جیتنے کی خواہش کررہے ہیں اور اس گمان میں ہیں کہ گجرات کا قسائی جیت گیا تو کشمیر کا مسئلہ حل ہوسکے گا۔ اب کہا جارہا ہے کہ ان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔ ان کا یہ انٹرویو ریکارڈڈ ہے، لیکن عمران خان کا ہر قول و فعل سیاق و سباق سے ہٹ کر ہی ہوتا ہے۔ اب شاہ محمود نے جو قریشی بھی ہیں، یہی فرمایا ہے کہ عمران نے جس خوش فہمی کا اظہار کیا ہے وہ سیاق و سباق کے مطابق نہیں ہے۔