پولیو کے قطرے ہر بار 

362

ہر کچھ دن کے بعد اعلان کیا جاتا ہے کہ پاکستان سے پولیو کا خاتمہ نہیں ہوسکا ہے۔ ایک پریس ریلیز جاری ہوتا ہے جس کے بعد بکاؤ میڈیا پر شور ہوجاتا ہے کہ فلاں شہر کے سیوریج میں پولیو کے جراثیم پائے گئے اور پھر سے پورے پاکستان میں پولیو کے خلاف مہم کا آغاز کردیا جاتا ہے۔ ہر گھر پر پولیو کے قطرے پلانے والے حملہ آور ہو جاتے ہیں اور جبری طور پر ہر بچے کو پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ ایک ماہ میں تین بار تک یہ قطرے پلائے جاتے ہیں اور یہ مہم سال میں کئی مرتبہ چلتی ہے۔ اس طرح ایک بچہ سال میں کم از کم 12مرتبہ یہ قطرے پیتا ہے اور پانچ سال کی عمر تک پہنچنے تک ان قطروں کی تعداد 60 مرتبہ تک پہنچ جاتی ہے۔ اگر کوئی اپنے بچوں کو اتنی زیادہ تعداد میں یہ قطرے پلانے سے انکار کردے اور یہ بتانے کی کوشش کرے کہ اس بچے کی ویکسین باقاعدہ اسپتال سے ہوتی ہے جس کا کارڈ بھی موجود ہے تو ان والدین کو بذریعہ پولیس فوری طور پر گرفتار کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے کردیتی ہے اور پھر بذریعہ میڈیا ان بیچاروں کی تشہیر اس طرح کی جاتی ہے کہ جیسے انتہائی خطرناک دہشت گرد گرفتار کرلیے گئے ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں سیوریج کے پانی میں پولیو کے یہ جراثیم کیوں کر ہر بار مل جاتے ہیں۔ پولیو کی ویکسین استعمال کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک طریقہ پولیو کے قطرے منہ کے ذریعے سے پلانے کا ہے جسے OPV کہا جاتا ہے جبکہ دوسرا طریقہ انجیکشن کے ذریعے براہ راست جسم میں داخل کرنے کا ہے جسے IPV کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں OPV یعنی منہ کے ذریعے پولیو کے قطرے پلانے کا طریقہ متروک کیا جاچکا ہے اور اسے بچوں کے لیے نقصان دہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کے متبال کے طور پر IPV یعنی انجیکشن کے ذریعے پولیو ویکسین کا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ اصول ہے کہ جب بھی کوئی چیز معدہ میں جائے گی، اس کا ایک بڑا حصہ معدہ بذریعہ فضلہ جسم سے باہر خارج کردیتا ہے۔ چونکہ پاکستان میں پولیو کے قطروں میں پولیو ہی کے جراثیم منہ کے ذریعے جسم میں داخل کیے جاتے ہیں، اس لیے ان جراثیم کا ایک حصہ بذریعہ فضلہ خارج ہوتا ہے۔ یہ بات پولیو کی مہم چلانے والی غیرملکی این جی اوز کو بھی معلوم ہے اسی لیے وہ ہر مرتبہ سیوریج کے پانی کے نمونے لیتی ہیں اور پھر اس میں سے پولیو کے جراثیم برآمد کرکے ایک خوفناک انکشاف کرتی ہیں کہ پاکستان سے پولیو کا ابھی تک خاتمہ نہیں ہوسکا ہے اس لیے پاکستان میں پولیو کی مہم جاری رہے گی۔ پھر ٹیلی وژن کے چینلوں پر اشتہار چلتے ہیں کہ کراچی، کوئٹہ، پشاور، راولپنڈی، لاہور اور کوئٹہ پولیو کے زبردست خطرے میں ہیں۔ پولیو کے خاتمہ کے لیے پولیو کے قطرے ہر بار لازمی پلائے جائیں۔ پاکستان تو کیا کسی بھی ملک میں بچوں کو اس طرح سے پولیو کے قطرے پلوائیے اور پھر وہاں کے سیوریج کے پانی میں پولیو کے جراثیم نہ برآمد ہوں تو پھر کہیے گا۔
ہر دوا کو دینے کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے جسے ماہر ڈاکٹر کی زیر نگرانی اختیار کیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ دوا کسی بھی شخص کو پکڑا دی اور وہ بندوق کے زور پر ہر شخص پر اسے استعمال کرتا پھرے۔ اور پھر بچے تو ویسے ہی انتہائی نازک ہوتے ہیں خاص طور سے شیرخوار بچے۔ نومولود بچوں میں مدافعتی نظام ہی پوری طرح سے تشکیل نہیں ہوپاتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہر بیماری کا جلد نشانہ بن جاتے ہیں۔ پولیو ویکسین کے ساتھ دیے گئے بروشر کو پڑھیں تو اس پر واضح لکھا ہے کہ اس ویکسین کو استعمال کرنے سے قبل ڈاکٹر کو اس بچے کی پوری ہسٹری دیں جس پر یہ ویکسین استعمال ہونے جارہی ہو۔ اس ہسٹری میں بتایا جائے کہ بچے کو کیا کیا بیماریاں لاحق ہیں، گزشتہ دنوں اس نے کون کون سی دوا استعمال کی ہے اور اسے کوئی الرجی تو نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ اس ویکیسن کے استعمال کے 30 دن بعد تک کسی بھی قسم کی اینٹی بایوٹک کا استعمال سختی سے منع ہے۔ اب پاکستان میں اس ویکسین کو اندھا دھند پلانے کے طریقہ کار پر غور کریں۔
پولیو ویکسین پلانے کے لیے جن خواتین و حضرات کو رضاکاروں کے نام پر ملازم رکھا گیا ہے، انہیں طب کی الف ب بھی نہیں آتی۔ انہیں سختی سے ایک ہی ہدایت دی گئی ہے اور وہ اس پر پوری طرح سے عمل بھی کرتے ہیں کہ جو بچہ مل جائے اسے یہ قطرے پلادو۔ کوئی کتنا احتجاج کرے کہ ابھی کل ہی یہ قطرے اس بچے نے پیے ہیں، یہ بچہ بخار میں مبتلا ہے، اس بچے کو الرجی ہے یا ہم اپنے بچے کی ویکسینیشن اسپتال کے ذریعے باقاعدگی سے کرتے ہیں، اس کو قطعاً سننے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر زبردستی کرنے پر بچے کے والدین یا سرپرست مشتعل ہوجائیں تو ہمراہ پولیس والوں یا رینجرز کے ذریعے ان والدین کو فوری طور پر سلاخوں کے پیچھے کرکے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کردی جائے۔
پاکستان میں 99.99فی صد عوام کو ویسے ہی اس قسم کی چیزوں سے آگاہی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ پولیس و رینجرز کا خوف اوررضاکاروں کا درشت و سخت رویہ۔ اس پر وہ اپنے بچوں کو خاموشی سے ہر بار یہ قطرے پلوادیتے ہیں۔ ہر سال حکومت یہ ڈیٹا تو جاری کرتی ہے کہ اس سال پورے پاکستان میں پولیو کے دو یا پانچ نئے کیس سامنے آئے مگر یہ ڈیٹا کبھی بھی منظر عام پر نہیں آیا کہ کتنے بچوں کو اس ویکسین سے ری ایکشن ہوا اور کتنے بچے اس ویکسین کو پینے کے بعد پولیو کا شکار ہوئے یا جان سے گئے۔ یہ ڈیٹا مرتب ہی نہیں کیا جاتا اور اسپتالوں میں یہ کیس انفرادی طور پر پہنچے تو اسے وہیں پر دبا دیا جاتا ہے۔
کوئی بھی دوا ہو، اس کی ایک مقرر کردہ خوراک ہوتی ہے۔ مقرر کردہ خوراک سے زاید مقدار کسی بھی دوا کی ہو، وہ زہر قاتل بن جاتی ہے۔ ضرورت سے زاید کھانا اور پانی وبال جان بن جاتا ہے نا کہ دوا۔ مگر پاکستان میں عجیب صورتحال ہے کہ ہر ایک دو ماہ کے بعد پولیو مہم کا غوغا اٹھتا ہے جس میں کم از کم تین مرتبہ ایک گھر کا وزٹ ضروری ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ پولیو کے قطرے ہر بار۔ پولیو کے جراثیم اتنی بڑی تعداد میں شیرخوار اور ننھے بچوں کو پلانے کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔