پولیو کے قطرے ہر بار (دوسرا اور آخری حصہ)

622

پاکستان میں پلائے جانے والے پولیو کے قطروں OPV میں پولیو کے متحرک جراثیم ہوتے ہیں اس لیے ان کے استعمال کی صورت میں ان بچوں میں بھی پولیو کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جن میں پہلے سے پولیو کی بیماری کے کوئی آثار نہیں ہوتے۔ اس کے مقابلے میں انجیکشن کے ذریعے لگائی جانے والی پولیو ویکسین IPV میں پولیو کے غیر متحرک جراثیم ہوتے ہیں اس لیے اس کے نقصانات کم ہوتے ہیں۔ پیدا ہونے سے لے کر چھ سال کی عمر تک پولیو کی چار خوراکیں تجویز کی جاتی ہیں۔ حیرت انگیز طور پر پاکستان میں ہر چند ماہ کے بعد پولیو کی مہم شروع کی جاتی ہے اور ہر مہم کے دوران ہر بچے کو کم از کم تین بار یہ قطرے پلائے جاتے ہیں۔ گھر پر پلائے جانے والے ان قطروں کے علاوہ وہ خوراکیں اس کے علاوہ ہیں جو اسکولوں میں اور اسپتالوں میں ان ہی بچوں کو پلائی جاتی ہیں۔
پولیو کے قطروںکے کیا نقصانات ہیں، اس بارے میں اس مہم کے چلانے والوں سے پوچھیں تو وہ رٹا رٹایا جواب دیتے ہیں کہ پولیو کے قطرے انتہائی محفوظ ہیں اور اس کے کوئی نقصان نہیں ہیں۔ ان کا یہ جواب عالمی ادارہ صحت WHO کی جانب سے جاری کی گئی ہدایات کی روشنی میں ہوتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی اپنی کہانی عجیب اور کردار مشکوک ہے۔ یہ امر ثابت ہوچکا ہے کہ افریقا میں پھیلائے جانے والے مہلک ترین جراثیم ایڈز، ملیریا، زیکا وائرس وغیرہ وغیرہ لیبارٹریوں میں تیار کیے گئے اور انہیں عالمی ادارہ صحت کی جانب سے چلائی جانے والی ویکسین کی مہم کے ذریعے افریقا میں پھیلایا گیا۔ ایک بار پھر سے سمجھ لیجیے کہ پولیو جاں لیوا بیماری نہیں ہے۔ اس سے ہاتھ یا پیر کی جزوی معذوری ہوجاتی ہے۔ دنیا میں صرف ملیریا ہی سے ساڑھے سات لاکھ سالانہ سے زاید اموات ہوتی ہیں جبکہ پولیو سے ایک بھی موت نہیں ہوتی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ زیادہ مہلک ترین چیز کیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پولیو کے پھیلنے کی وجہ سیوریج کی خراب صورتحال ہے۔ جتنا پیسا اب تک پولیو مہم پر لگایا گیا ہے، اگر اتنا ہی پیسا صفائی کی صورتحال بہتر بنانے پر خرچ کرلیا جاتا تو لوگوں کا معیار زندگی بھی بلند ہوجاتا، انہیں سہولتیں بھی مل جاتیں اور پولیو سمیت ڈائریا جیسی خونیں بیماریوں کا بھی خاتمہ ہوجاتا۔
آپ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ اتنی زیادہ over dose پولیو کے قطرے پینے کی صورت میں معصوم شیر خوار بچہ جس کی قوت مدافعت ابھی پوری طرح سے پیدا بھی نہیں ہوئی ہے، پر کیا اثرات مرتب ہوں گے تو پتا چلتا ہے کہ اس بارے میں کہیں پر کوئی تحقیق موجود ہی نہیں ہے۔ پولیو مہم چلانے والوں کے پاس رٹے رٹائے جواب تو موجود ہیں کہ پولیو کے قطرے قطعی طور پر محفوظ ہیں، مگر اس بارے میں اس مہم کو چلانے والے ڈاکٹروں کے پاس بھی کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ صرف بھارت میں ہی پولیو کے قطرے پلانے کے نتیجے میں 24 ہزار ایسے بچوں میں پولیو کی بیماری کا انکشاف ہوا تھا، جن میں پولیو کے یہ قطرے پینے سے قبل ایسی کوئی علامت نہیں تھی۔ ایسے تمام کیس فوری طور پر دبا دیے جاتے ہیں اور اس کا چرچا کہیں پر بھی نہیں ہوتا۔ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک بیماری کے جراثیم اندھا دھند ایک بچے کے جسم میں داخل کردیے جائیں اور اس کے مضر اثرات ہی مرتب نہ ہوں۔
خود پاکستان میں بھی اور بیرون ملک بھی ابھی تک ایسا ڈیٹا مرتب نہیں کیا گیا کہ جن بچوں نے پولیو کی ویکسین لی اور جن بچوں نے پولیو کی ویکسین نہیں لی، بلوغت کے بعد کیا فرق پڑا۔ یہ امر اپنی جگہ حقیقت ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ مردوں میں بانجھ پن بڑھتا جارہا ہے یعنی ان کے اندر بچے پیدا کرنے کے جراثیموں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال خواتین میں بھی پیدا ہورہی ہے اور ان میں بانجھ پن کے ساتھ ساتھ ثانوی بانجھ پن یعنی ایک بچے کی پیدائش کے بعد مزید بچے پیدا کرنے صلاحیت کم ہوتی جارہی ہے۔ زیکا وائرس کے حوالے سے میں نے فروری 2016 میں چار مضامین کی ایک سیریز لکھی تھی۔ اس آرٹیکل سے ایک اقتباس جس سے یہ سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ عالمی ادارہ صحت اور امریکی ادارہ فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن اتھارٹی کس طرح انسانی جانوں سے کھیلتے ہیں۔
’برازیل کی حکومت نے 2014 میں لازمی قرار دیا تھا کہ تمام حاملہ خواتین کو خناق، تشنج اور دیگر بیماریوں سے بچاو¿ کے لیے تیار کردہ نئی ویکسین TDAP لازمی پلائی جائے۔ پہلے ان تمام بیماریوں کے لیے الگ الگ ویکسین دی جاتی تھی مگر اس ایک ویکسین میں کہا گیا کہ تمام بیماریوں کے بچاو¿ کی تدبیر ہے۔ آگے چلنے سے قبل ایک وضاحت۔ یہ ویکسین ہوتی کیا ہے؟ ویکسین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں اس بیماری کے جراثیم ہوتے ہیں جس سے بچاو¿ مقصود ہوتا ہے۔ بیماری کے یہ جراثیم محدود تعداد میں انسانی جسم میں داخل کیے جاتے ہیں جس کے بعد انسانی جسم اس بیماری سے مدافعت کے لیے اپنے آپ کو تیار کرلیتا ہے اور پھر اس بیماری کے حملہ آور ہونے کی صورت میں انسانی جسم کا خودکار دفاعی نظام حرکت میں آجاتا ہے اور یوں انسان اس بیماری سے محفوظ رہتا ہے۔
جب ماہرین نے اس امر کا کھوج لگایا کہ ان خواتین میں کیا قدر مشترک ہے جن کے ہاں ذہنی اپاہج بچے پیدا ہوئے تو پتا چلا کہ ان سب نے نئی ویکسین TDAP استعمال کی تھی جبکہ دور دراز دیہاتوں کی وہ خواتین جو زیکا وائرس کی زد میں زیادہ تھیں، ان کے ہاں نارمل بچوں کی پیدائش عمل میں آئی ہے۔ ماہرین نے برازیلی حکومت کے اعداد و شمار کو جانچا تو پتا چلا کہ 4170 کیس ذہنی اپاہج بچوں کے رپورٹ کیے گئے ہیں اس میں سے محض 270 اصلی ہیں باقی بچے دوسری بیماریوں کا شکار ہیں۔ جب ان 270 بچوں کی ماو¿ں کی جانچ کی گئی تو ایک اور حقیقت سامنے آئی کہ ان 270 ماو¿ں میں سے محض 6 بچوں کی مائیں زیکا وائرس کا شکار ہوئی تھیں۔ ذہنی طور پر اپاہج بچوں کی پیدائش رپورٹ ہونے سے دس ماہ قبل ہی یہ ویکسین لازمی طور پر حاملہ خواتین کو دینی شروع کی گئی تھی۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ معاملات نئی ویکسین سے خراب ہوئے ہیں نہ کہ زیکا وائرس سے۔ ذرا اور گہرائی میں جا کر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ اس نئی ویکسین کو زبردستی مفت پلوانے والی این جی او بھی یہی ملنڈا اینڈ گیٹس فاو¿نڈیشن ہے۔
اب اس نئی ویکسین کے بارے میں چند اور حقائق۔ نئی ویکسین کے استعمال سے قبل مناسب سطح پر جانچ نہیں کی گئی کہ یہ حاملہ خواتین اور بچوں کے لیے کتنی محفوظ ہیں یا اس ویکسین کے ان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ امریکا کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن اتھارٹی نے اس امر کو تسلیم کیا کہ مارکیٹ کرنے سے قبل انسان پر مناسب جانچ نہیں کی گئی اور اس کا کوئی علم نہیں ہے کہ اس ویکسین کے حاملہ خواتین یا ان کے بچوں پر کیا منفی اثرات مرتب ہوں گے یا اس کے ان خواتین کے آئندہ بچے پیدا کرنے کی صلاحیت پر کیا اثرات ہوں گے؟ یہ ویکیسن تیار کرنے والی کمپنیاں خود کہتی ہیں کہ انسانی جسم پر اس کے زہریلے اثرات اور خواتین کی زرخیزی کے حوالے سے مطالعہ ناکافی ہے۔ اس لیے اسے حاملہ خواتین پر انتہائی ضرورت کے وقت ہی استعمال میں لایا جائے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکی اتھارٹی نے دس گیارہ سال سے زاید عمر کے لوگوں میں زندگی میں صرف ایک مرتبہ اس ویکسین کو استعمال کرنے کی اجازت دی ہے جبکہ برازیل میں ہر خاتون کو اس کی زچگی کے دوران اس کا استعمال لازمی اور زبردستی کروایا جاتا ہے۔ اس امر کو جانے بغیر کہ مذکورہ خاتون اس ویکسین کو پہلے بھی لے چکی ہیں، اس ویکسین کو دوبارہ دے دیا جاتا ہے۔ حاملہ خاتون کو اس کے استعمال کا مطلب یہ ہوا کہ دس گیارہ سال سے چھوٹے بچے تو درکنار، اس بچے پر بھی اس کا استعمال کردیا گیا جو ماں کے پیٹ میں ابھی تشکیل کے مراحل میں ہی ہے‘۔
اب پولیو کے قطروں کوپلانے اور بار بار پلانے پر مجبور کرنے کو مذکورہ بالا اقتباس کی روشنی میں دیکھیے تو سب کچھ ازخود واضح ہوجاتا ہے۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔