تھر میں قحط

288

کوئی ہفتہ نہیں گزرتا کہ تھر میں قحط کے بارے میں اخبارات میں جلی سرخیوں کے ساتھ خبریں نہ شائع ہوتی ہوں کہ آج بھی تھر میں تین بچے غذائی قلت کا شکار ہو کر اسپتال میں جاں بحق ہوگئے۔ تھر سندھ کا سرحدی صحرائی علاقہ ہے۔ ان خبروں کی اشاعت سے ایسا معلوم ہوتاہے کہ تھر میں قحط کی سی صورتحال ہے اور وہاں کے باشندے ایتھوپیا یا یمن کی طرح شدید غذائی قلت کا شکار ہو کر بھوک کے ہاتھوں موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ تھر کی صورتحال پر گفتگو سے قبل تھر کے بارے میں مختصر سا تعارف۔
تھر چوںکہ صحرائی علاقہ ہے اس لیے یہاں پر آبادی بھی بہت زیادہ نہیں ہے۔ مٹھی، عمرکوٹ، اسلام کوٹ یہاں کے مشہور شہر ہیں۔ تھر کو انسان دوست صحرا کہا جاتا ہے۔ بارش ہوتے ہی یہاں کی زمین لہلہا اٹھتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ہم پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں گھوم رہے ہوں۔ تھر پارکر سے ملحق ہی ننگر پارکر کا علاقہ ہے جو بھارتی سرحد کے ساتھ ہے۔ ننگر پارکر بالکل مختلف علاقہ ہے۔ کارونجھار پہاڑ کے ساتھ اس علاقے میں جھیلیں بھی ہیں اور جھرنے بھی۔ اسلام کوٹ میں تھرکول فیلڈ بننے سے اس علاقے کی قسمت بدل گئی ہے اور اب اسلام کوٹ تک خوبصورت شاہراہ جاتی ہے۔ اس سے قبل جب ارباب غلام رحیم سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے تو اس زمانے میں زبردست ترقیاتی کام ہوئے تھے۔ تھر کی ثقافت اور معیشت پر ہندو چھائے ہوئے ہیں۔ تھر کا شمار سندھ کے پرامن ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ یہاں کے ہرن اور مور پورے پاکستان میں مشہور ہیں۔ عید الاضحی کے زمانے میں پورے پاکستان میں گائے کی فراہمی کے لیے تھر مشہور ہے۔ یہاں کے لوگوں کا ذریعہ روزگار مال مویشی پالنا ہے۔ جس زمانے میں بارش نہیں ہوتی ہے، یہاں کے لوگ اپنے مال مویشی لے کر دریائی علاقوں کی طرف کوچ کرجاتے ہیں اور بارش کا زمانہ آتے ہی اپنے علاقوں میں واپس لوٹ آتے ہیں۔ بارش کے بعد چوںکہ پورا تھر چراگاہ کا منظر پیش کررہا ہوتا ہے، اس لیے دریائی علاقوں میں ان تھری لوگوں کے میزبان اپنے مال مویشی لے کر تھر کا رخ کرتے ہیں۔ اس زمانے میں تھر کے لوگ اپنے ان مہمانوں کے لیے خاص طور سے جھونپڑیاں ڈالتے ہیں اور ان کا سواگت کرتے ہیں۔ سیکڑوں برس سے تھر کے لوگوں کا یہی معمول ہے۔
بدین کے راستے تھر میں داخل ہوں تو پہلا شہر مٹھی پڑتا ہے۔ صاف ستھرے مٹھی کے بازار میں جائیں تو یہ بھی سندھ کا ایک عام سا شہر ہی معلوم ہوتا ہے۔ دکانیں پھلوں، میوہ جات اور اجناس سے بھری ہوئی ہیں۔ جگہ جگہ مٹھائی کی دکانیں بھی نظر آئیں گی۔ ہوٹلوں پر لوگ چائے پیتے خوش گپیاں کرتے نظر آئیں گے۔ وہ کون سی شے ہے جو کراچی یا حیدرآباد میں دستیاب ہے اور مٹھی میں موجود نہیں ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال اسلام کوٹ، عمر کوٹ اور دیگر شہروں کی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ روز تھر کے بارے میں قحط زدہ ہونے کی خبر چھپی ہوتی ہے۔
قحط پڑنے کا مطلب ہے کہ اُس علاقے میں اشیائے خور ونوش موجود ہی نہیں ہیں اور کسی کو بھی دستیاب نہیں ہیں۔ اس کا مظاہرہ ہم جنگ زدہ یمن میں دیکھ سکتے ہیں جہاں پر بڑوں اور کمسن بچوں کی بھوک سے یکساں حالت ہے۔ ان کا چمڑا ہڈی سے لگ گیا ہے اور پورا جسم ایک ڈھانچے کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ مگر تھر میں کہیں پر بھی ایسا نہیں ہے۔ یہ ضرور ہے کہ غربت ہے مگر ایسی صورتحال تو پورے پاکستان میں ہر جگہ نظر آتی ہے۔ ذرا سا غور کریں تو انکشاف ہوگا کہ جن بچوں کے مرنے کی خبریں شائع ہوتی ہیں وہ نوزائیدہ ہوتے ہیں۔ تو کیا قحط کا شکار صرف نوزائیدہ بچے ہیں۔ تھوڑی سی تحقیق کریں تو پتا چلتا ہے کہ عمومی طور پر جن گھروں میں ان بچوںکی اموات ہورہی ہیں وہ ہندو ہیں۔
ہندوو¿ں میں مذہبی طور پر عورتوں کو کمتر تصور کیا جاتا ہے اسی لیے عمومی طور پر انہیں مردوں کے مقابلے میں غذا بھی کمتر دی جاتی ہے۔ جب ان عورتوں کے ہاں لگا تار بچوں کی پیدائش ہورہی ہوتی ہے تو پانچویں اور چھٹے بچے عمومی طور پر انتہائی کمزور پیدا ہوتے ہیں کیوں کہ ان ماو¿ں کو دوران حمل خصوصی غذائیت نہیں ملی ہوتی ہے۔ یہ کمزور نوزائیدہ بچے دیگر بیماریوں کے لیے آسان شکار ثابت ہوتے ہیں اور جلد ہی مر جاتے ہیں جس کے بعد باقاعدہ ایک مافیا ان کے مرنے کی خبریں میڈیا پر چلواتا ہے۔
جتنے بچے پورے تھر میں روزانہ مرتے ہیں، اس سے زیادہ بچے تو کراچی کے ایک اسپتال نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ میں روزانہ مر جاتے ہیں۔ ان خبروں کی اشاعت کے بعد مافیا کا کام شروع ہوتا ہے اور وہ ہنگامی حالت اور ان غریبوں کی مدد کے نام پر فوری طور پر کروڑوں روپے کی گرانٹ منظور کرواتے ہیں اور چند سو بیگ ان تھری عورتوں میں تقسیم کے لیے پہنچادیے جاتے ہیں۔ یہ چند سو بیگ بھی یہ تھری عورتیں استعمال میں نہیں لاپاتیں کیوں کہ ان کے مرد ڈیڑھ ہزار روپے کے عوض یہ بیگ ٹھیکیدار کو دوبارہ فروخت کردیتے ہیں اور یہی ٹھیکیدار ان ہی بیگوں کو کئی گنا زاید رقم پر دوبارہ سے مقامی انتظامیہ کو سپلائی کردیتا ہے۔ یوں تھر میں غذائی قلت کے نام پر کرپشن کی ایک نہر بہہ رہی ہے جس میں مقامی انتظامیہ، ٹھیکیدار اور مقامی سیاستدان سب کی مٹھی گرم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کچھ دن بعد تھر میں قحط کی خبر چھپوائی جاتی ہے اور پھر سندھ حکومت اور تھر کی مقامی انتظامیہ وغیرہ سب کے سب نئی گرانٹ کو لوٹنے کا انتظام کرلیتے ہیں۔
تھر میں سندھ حکومت اور مقامی انتظامیہ جو کچھ بھی کر رہی ہے، اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں ہے۔ افسوس ہے تو میڈیا پر۔ ان اخبارات کے ایڈیٹر اور چینلوں کے ڈائریکٹروں نے ایک مرتبہ بھی اپنے کسی رپورٹر سے نہیں کہا کہ بھائی تھر کے قحط کے بارے میں تحقیقاتی رپورٹ تو بناکر لاو¿۔ بس جو فراہم کردیا گیا وہ چھاپ دیا اور نشر کردیا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دیگر معاملات کے بارے میں جو کچھ بھی پڑھنے اور دیکھنے کو فراہم کیا جارہا ہے وہ کتنا مستند ہے۔ اس وقت ہم ایک ایسے دور میں رہ رہے ہیں جہاں پر ہر چیز مصنوعی ہے۔ شدید دھوپ میں بارش کا ماحول بھی بنایا جاسکتا ہے اور خوبصورت ماحول کو غمگین بھی کیا جاسکتا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی بنائی ہوئی اس دنیا سے باہر نکلیں اور virtual world سے باہر جھانکنے کی کوشش کریں تو حقائق بالکل مختلف دنیا دکھائیں گے۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیں اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیں۔ ہشیار باش۔