خان صاحب ذہنی دباؤ کا شکار ہیں

234

اس میں کوئی شک نہیں کہ حکمرانی پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا بستر ہوا کرتی ہے۔ باہر سے جو کچھ نظر آرہا ہوتا ہے اندر سے وہ اس سے بہت ہی مختلف ہوتا ہے۔ حکمرانی کے اس شوق میں نہ جانے کتنے نیم پاگل ہوجاتے ہیں اور کچھ بالکل ہی پاگل۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر پاگل یا نیم پاگل ہو جانے والا لازماً تختہ اقتدار تک پہنچ ہی جائے لیکن یہ طے ہے کہ جو افراد خود جدوجہد یا کوشش کے نتیجے میں اس منزل کو حاصل کرتے ہیں وہ بلاشبہ مضبوط اعصاب کے مالک ہوتے ہیں اور تختہ اقتدار پر پہنچنے کے بعد وہ اور بھی توانا نظر آنے لگتے ہیں لیکن جو بیساکھیوں کے سہارے اس منزل کو حاصل کرتے ہیں وہ نہ تو حکمرانی کے اہل ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کے اعصاب اس ذمے داری کا بوجھ برداشت کرپاتے ہیں۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عمران خان صاحب ایک طویل عرصہ سے میدان سیاست میں اترے ہوئے ہیں اور اپنا ایک ’’وژن‘‘ لیکر عوام کے سامنے آئے ہیں۔ 2018 کے الیکشن میں ان کو اس حد تک تو کامیابی ضرور حاصل ہوئی کہ وہ ایک اکثریتی پارٹی کے طور پر سامنے آئے لیکن حکومت بنانے کے لیے انہیں ہر اس پارٹی کا سہارا لینا پڑا جس پر وہ اپنی ساری سیاسی جدوجہد میں کرپٹ اور ملک کو تباہ کرنے کا الزام لگاتے رہے تھے۔ پھر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ملکی و غیر ملکی میڈیا کے مبصرین بھی ان کی کامیابی کو عسکری قوتوں کی مہربانی قرار دیتے رہے ہیں۔ خود ان کی پارٹی کا میڈیا سیل جس قسم کی تبصرہ آرائی کرتا چلا آرہا ہے وہ بذات خود اس جانب اشارہ ہے کہ اْن کی کامیابی ان ہی کی مرہون منت ہے۔
ان ساری باتوں سے ہٹ کر ایک بات یہ بھی نمایاں نظر آئی کہ ہر وہ سیاسی پارٹی جو عمران خان کو اس منزل تک پہنچانے میں رکاوٹ بن سکتی تھی ان سب کو ’’ہموار‘‘ میدان فراہم نہیں کیا گیا جس میں مسلم لیگ ن، پی پی پی اور ایم کیو ایم بھی شامل رہی ہیں۔ اگر 14 سیٹیں جو پی ٹی آئی کو کراچی سے ملی ہیں، صرف وہ ہی کم کردی جائیں تو اس جماعت کی حکومت تو کیا اپوزیشن بننا بھی کار دارد ہی قرار پاتا۔
جو مشکلات الیکشن سے قبل پاکستان کی دو تین نمایاں جماعتوں کو در پیش تھیں ان مشکلات میں الیکشن کے بعد سے لیکر تا حال نہ صرف کوئی کمی نہیں آئی بلکہ ان کی مشکلات میں ہر آنے والے دنوں میں اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے اور اب تو یوں لگتا ہے کہ شاید مستقبل میں چین کی طرح ’یک پارٹی‘ حکومت کا منظر نامہ ہی دیکھنے میں آئے گا۔ جس پارٹی کو اقتدار کچھ اس انداز میں ملا ہو، اس کی راہ میں حائل ہر بڑی اور نمایاں سیاسی پارٹی کو پابند سلاسل کر دیا ہو، عسکری اور عدالتی سطح پرفراخ دلی میسر ہو، اس کے سر براہ کے بارے میں اگر صدر پاکستان، جن کا تعلق خالص ان ہی کی پارٹی سے ہو، وہ یہ فرما رہے ہوں کہ ’’عمران خان سخت ذہنی دباؤ کا شکار ہیں‘‘۔ تو پھر بات عقل و فہم سے ماوریٰ ہو جاتی ہے۔ صدر پاکستان جناب عارف علوی کا فرمانا ہے کہ ’’نئے پاکستان کے موجودہ حالات کی وجہ سے عمران خان ذہنی دبائوکا شکار اور بہت پریشان ہیں اور اس پریشانی میں وزیر اعظم نے صبح کی واک بھی چھوڑ دی ہے‘‘۔ نجی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ میں نے وزیر اعظم کو بارہا کہا ہے کہ ورزش آپ کی دماغی صحت کے لیے بے حد ضروری ہے، آپ خود کو ایکٹیو رکھیں۔ عمران خان نے اِن سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب ہم چیزوں کو جیسے دیکھتے تھے، یہ ویسی نہیں ہیں، ہمارا 3 ماہ کا پلان فیل ہو گیا، اب صورتحال یہ ہے کہ ملکی حالات بھی آج تک ٹھیک نہیں ہو پا رہے اور نہ پالیسی پر کہیں کوئی عملدرآمد ہوتا دکھا ئی دے رہا ہے‘‘۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ خان صاحب واقعی شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوںگے۔ یہ دباؤ کئی لحاظ سے ہوگا۔ ممکن ہے وہ خود اپنی مرضی اور ذہنی صلاحیتوں کے مطابق جو کچھ کرنا چاہتے ہوں وہ کرنے نہ دیا جارہا ہو۔ ہر مشورے کے بعد ایک اور ’’بڑی‘‘ مشاورت کی ضرورت پیش آتی ہو۔ ذہن پر دباؤ کا ایک سبب یہ بھی ہو کہ ان کے ارد گرد وہ تمام مصاحبین ہیں جن کا ماضی ہر قسم کی کرپشن میں شریک رہا ہے۔ ممکن ہے کہ خان صاحب انہیں مشیر یا وزیر بنانا گوارہ نہ کرتے ہوں لیکن وہ ’کسی‘ حلقے میں گوارہ ہوں۔
حال ہی میں وزارتوں میں بڑا رد و بدل دیکھا گیا ہے اور اس پر ایک المیہ یہ بھی نظر آیا ہے کہ بہت سارے وہ افراد جو ان کی ٹیم کا حصہ بھی نہیں رہے تھے، ان کو بھی اپنی کابینہ میں شریک کرنا پڑا ہے۔ ان کو کابینہ میں شامل کیا جانا ان ساتھیوں کے لیے یقینا مایوس کن رہا ہوگا جو ہر قسم کی جد و جہد میں شامل رہنے کے باوجود صلے سے محروم کر دیے جائیں۔ یہ بات خود خان صاحب کے لیے بھی کوئی کم تکلیف دہ نہیں ہوگی۔ یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ ایک حکومت جس کے دعوے بہت بلند و بانگ ہوں لیکن اس کے برعکس اقتدار کی 20 فی صد مدت گزر جانے کے بعد بھی کوئی نمایاں کارکردگی سامنے نہ لاسکی ہو، عوام کو ریلیف ملنے کے بجائے ان کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوا ہو، مہنگائی بڑھ گئی ہو، اسٹاک مارکیٹ مسلسل تنزلی کا شکار ہو، روپے کی قدر روز بروز گرتی جا رہی ہو اور ترقی کی جانب کوئی ایک قدم بھی اس یقین کے ساتھ نہ بڑھ پا رہا ہو جس سے عوام کی ڈھارس باندھی جا سکے تو پھر خان صاحب کا ذہنی دباؤ بڑھنا تو لازمی ہی ہوا۔ اس لحاظ سے صدر پاکستان نے جو کچھ بھی کہا وہ بہت ہی درست کہا ہے۔ اس ذہنی دباؤ کا ہی نتیجہ ہے کہ خان صاحب جو کہنا چاہتے ہیں وہ کسی بھی پبلک مقام پر کہتے کہتے رک سا جاتے ہیں۔ کل جہلم میں ’’القادر‘‘ یونیور سٹی کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے جو خطاب کیا وہ اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ وہ جو کچھ کہنا چاہتے تھے کہنے سے قبل انہیں کسی کی روکا ٹوکی کا خیال آجاتا تھا۔ خلاف معمول خان صاحب بھی دیگر رہبران کی طرح ’’پرچی‘‘ پکڑ کر تقریر کرنے پر مجبور نظر آئے لیکن ان کے الفاظ یا تو ان کی سوچ سے آگے نکل جاتے تھے یا پھر سوچ الفاظ سے تیز رفتا ہوجاتی تھی۔ ان کی ساری تقریر میں سر اور پیر کی تو کمی تھی ہی ساتھ ہی ساتھ وہ کوئی ایک بات بھی مکمل اعتماد کے ساتھ نہیں کر پارہے تھے۔
ایک جمہوری حکمران جمہور ہی کا نمائندہ ہوتا ہے خواہ کسی بھی راستے سے آئے اس لیے ان کو بھی یہ ماننا پڑا کہ ’’ملک کو فوج نہیں عوام متحد رکھتے ہیں‘‘۔ جب یہ بات طے ہیں کہ ملک کو آگے عوام ہی لے جاسکتے ہیں تو پھر انہیں اپنی ساری باتوں کو ایک نئے سرے سے دیکھنا ہوگا۔ جمہوری قوتوں کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ کو دور کرنا ہوگا۔ سب کو ہموار میدان مہیا کرنا ہوگا۔ ہر سیاسی پارٹی کی سیاسی ازادی کا احترام کرنا ہو اور ساری بیساکھیوں سے اپنے آپ کو آزاد کرنا ہوگا۔ یہ سب کریں گے تو وہ اپنے ذہنی دباؤ سے باہر آسکیں گے ورنہ وہ اپنے آپ ہی کو نہیں پاکستان کو بھی مشکلات میں ڈال دیں گے۔