اسد عمر کے احسان کا بدلہ

348

 

اسد عمر کا ایک احسان تو عمران خان بھی مانتے ہیں اسی لیے عبدترک الفت پر دستخط نہیں کیے۔ اور یہ احسان ہے عمران خان کو خودکشی کرنے سے بچانا۔ دیکھا جائے تو یہ احسان پوری تحریک انصاف پر ہے، قوم پر ہے یا نہیں اس پر بحث چل رہی ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ عمران خان نے اعلان کر رکھا تھا کہ اگر وہ آئی ایم ایف کے پاس گئے تو خودکشی کرلیں گے۔ چناں چہ اسد عمر خود چلے گئے۔ اور جب صرف آنکھوں کی سوئیاں رہ گئیں تو حفیظ شیخ کو درآمد کرلیا گیا۔
عمران خان کے لیے یہ کوئی مسئلہ بھی نہیں تھا۔ وہ یوٹرن لینے کے عادمی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ ان کی دو بیویاں اسی عادت کی وجہ سے انہیں چھوڑ گئیں۔ تیسری کے قبضے میں تو جن ہیں، انہیں کوئی پروا نہیں۔ انہوں نے تصوف کے فروغ کے لیے القادر یونیورسٹی بنوادی۔ اس کی وائس چانسلر کا منصب انہی کو زیب دیتا ہے۔ وہ عمران خان کو بھی تصوف کا درس شادی سے پہلے دیتی رہی ہیں اور خود عمران خان نے تسلیم کیا ہے کہ وہ پنکی بی بی سے رومی اور شمس تبریز کے بارے میں اسباق لیتے رہے ہیں۔ اب اس قابل ہوگئے کہ اپنا موازنہ رسول اکرمؐ سے کرنے لگے ہیں۔ کہتے ہیں کہ رسول اکرمؐ کو بھی مکہ کی زندگی میں 13 سال تک شدید تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ اس پر ایک اخبار نے اداریے کا عنوان جمایا ’’چہ نسبت خاک رابہ عالم پاک‘‘۔ لیکن یہ خاک اڑ اڑ کر سروں پر گر رہی ہے۔
بہرحال عمران خان نے اپنے ریٹائرڈ ہرٹ اوپننگ بیٹسمین کی خدمات کے اعتراف میں انہیں قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا چیئرمین بنادیا ہے۔ تعلق خزانے ہی سے رہے گا جس کا حلیہ بگاڑ کر گئے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے گورنر کو خلاف آئین مدت پوری کرنے سے پہلے فارغ کرکے آئی ایم ایف سے ایک پیرا شوٹر رضا باقر کو لا بٹھایا گیا۔ شبر زیدی کو ایف بی آر دے دی گئی۔ خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے باقر و شبر دونوں۔ رضا باقر کی تعیناتی کو آئی ایم ایف کی حکمرانی قرار دینے پر نوآمدہ مشیر اطلاعات فردوس عاشق ایوان نے فرمایا کہ رضا باقر بھی اسی دھرتی کے بیٹے ہیں، اسی ملک کے سپوت ہیں۔ تو کیا سابق گورنر اسٹیٹ بینک کا تعلق صومالیہ، اسپین یا جرمنی سے تھا؟ کیا وہ اس دھرتی کے بیٹے نہیں تھے یا ہیں؟ دھرتی کے اس نئے بیٹے باقر رضا نے اب تک اس دھرتی کے لیے کیا خدمات انجام دیں، کچھ اس پر بھی روشنی ڈال دی ہوتی ۔ان کو تو پاکستان کا شناختی کارڈ بھی ایک دن پہلے ہی ملا ہے۔ تب تک وہ اس دھرتی کے بیٹے نہیں تھے۔ شناختی کارڈ کے بغیر حکومت اور قانون کسی کو دھرتی کا بیٹا تسلیم نہیں کرتے، انہیں غیر ملکی قرار دیا جاتا ہے۔ یہ وہی واردات ہوئی ہے جو درآمدی وزیراعظم معین قریشی کے ساتھ ہوئی تھی جن کو ائرپورٹ پر شناختی کارڈ دیا گیا جس پر پتا وزیراعظم ہائوس کا تھا، گوکہ وہ اس وقت تک ایوان وزیراعظم میں داخل بھی نہیں ہوئے تھے۔
اس پر بھی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کہہ سکتے ہیں کہ یہ کونسی نئی بات ہوئی، ایسا تو پہلے بھی ہوا ہے۔ وہ سینیٹ میں چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ ہم اگر آئی ایم ایف کے پاس گئے تو پچھلی حکومتیں 16 مرتبہ جاچکی ہیں۔ ہر کام میں پچھلی حکومتوں ہی کی تقلید کرنی ہے تو وہ تبدیلی کہاں ہے جس کے دعوے تھے۔ اعلان کیا گیا ’’تبدیلی آنہیں رہی، آگئی ہے‘‘۔ اور اس نعرے کے بعد ایک تبدیلی بنی گالا میں ضرور آئی۔ وہ تبدیلی جو دھرنے کے دوران میں آئی تھی وہ نجانے اب کہاں ہے۔
گزشتہ بدھ کو وزیراعظم نے قومی اسمبلی کو شرف بخشا تاہم اجلاس سے بھی یوٹرن مار لیا۔ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے موصوف نے انکشاف کیا کہ ’’حکومت کرنا بہت آسان ہے، اپوزیشن کرنا مشکل ہے‘‘۔ یقینا ان کے لیے یہ کام بہت آسان ہے کہ صرف دعوے اور اعلانات ہی تو کرنے ہیں۔ مشکل تو ان کے لیے ہے جن پر حکومت مسلط کردی گئی ہے۔ سب سے بڑی آسانی یہ ہے کہ ہر خرابی کا الزام گزشتہ حکومتوں پر ڈال دیا جائے۔ ایسے میں کفن چور کا قصہ یاد آجاتا ہے۔ جب وہ مرنے لگا تو بڑے افسوس سے کہا کہ میرے مرنے کے بعد سب لوگ مجھے بُرا کہیں گے۔ بیٹے نے کہا ابا، تو فکر نہ کر، میں ایسا کام کروں گا کہ لوگ تیری تعریف کریں گے۔ چناں چہ کفن چور کا بیٹا کفن اتارنے کے بعد لاش کو قبر کے باہر ہی ڈال دیتا تھا۔ لوگ اس کے باپ کو یاد کرتے تھے کہ اس سے اچھا تو وہ تھا جو کفن اتار کر لاش کو دفن بھی کردیتا تھا۔ اب تو شاید کفن ملنا ہی مشکل ہو۔ حکومت کے ہالی موالی مسلسل مکھن لگارہے ہیں کہ عمران خان جیسا وژنری حکمران تو کبھی آیا ہی نہیں۔ حتیٰ کہ فردوس عاشق اعوان تک نوکری نباہ رہی ہیں جو کبھی پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی ایسی ہی مداح تھیں۔ تحریک انصاف کے کوئی سینیٹر ہیں فیصل جاوید۔ انہیں بھی تحریک کا رہنما لکھا جارہا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ اب تک ملک پر (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کا آسیب سوار تھا۔ لیکن اب تحریک انصاف آگئی ہے۔
تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں خود ارکان نے شکوے کیے ہیں کہ کابینہ میں پیراشوٹرز (چھاتا بردار) لا کر بٹھادیے گئے ہیں۔ عمران خان کی کامیابی سے جلنے والے تو انہیں بھی پیراشوٹر کہتے ہیں۔ عمران خان اور ان کے وزرا کہتے ہیں کہ معیشت کے لیے دو سال بڑے کٹھن ہیں۔ عوام کی چیخیں نکلیں گی۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ لوگ عادی ہوجائیں گے یا گلا بیٹھ جائے گا۔
سنڈے میگزین کے شمارہ 5 تا 11 مئی میں ایک مضمون نگار تنویر اللہ کا ایک جملہ ہے ’’ہر وقت واویلا اور دعوے کرنے کے بجائے کچھ کرنے کا سوچیں، آپ کی زبن خاموش ہوگی تو ذہن کچھ سوچنے کی طرف مائل ہوگا‘‘۔ مشورہ صائب ہے لیکن اب خاموش رہنا ممکن نہیں کہ گزشتہ 22 برس کی مشق ہے۔