(کراچی سرکلر ریلوے (حصہ اول

263

کراچی سرکلر ریلوے پر اس وقت سیاست زور وشور سے جاری ہے ۔ وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ سرکلر ریلوے چلانا سندھ کی ذمہ داری ہوگی جبکہ سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ ریلوے وفاقی ادارہ ہے ، اس لیے یہ ذمہ داری بھی اسی کی ہوگی ۔اس بحث سے قطع نظر کہ کراچی کی سرکلر ریلوے کون چلائے گا ، اس پر سب یکسو اور متفق ہیں کہ کراچی میں سرکلر ریلوے چلے گی ۔ عدالت عظمیٰ نے بھی اس میں اپناحصہ یہ احکامات دے کر ڈال دیاہے کہ سرکلر ریلوے کی اراضی 15 دن کے اندر اندر واگزار کروائی جائے ۔عید کی آمد آمد ہے مگر پوری انتظامیہ ریلوے لائن پر سے تجاوزات ہٹانے میں لگی ہوئی ہے ۔ ان میں پختہ مکانات بھی ہیں ، جن کے پاس باقاعدہ ریلوے کے اجازت نامے اور دیگر دستاویزات بھی ہیںمگر اس لمحے کسی کی نہیں سنی جارہی ہے اور صرف اور صرف انہدامی کارروائیاں جاری ہیں ۔ عدلیہ نے تجاوزات سے متاثر ہونے والوں کی آبادکاری کے بھی احکامات ساتھ ہی جاری کیے تھے مگر عدالتی حکم کے اس حصے کو فی الحال انتظامیہ نے پس پشت ڈال دیا ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اگر مقررہ وقت پر کراچی سرکلر ریلوے کے لیے کام نہ شروع ہوا تو پتا نہیں کون سی قیامت آجائے گی یا پھر کراچی سرکلر ریلوے کی عدم موجودگی میں اہل کراچی شاید اتنے ہی بے حال ہیں جتنا بجلی اورپینے کے پانی کی عدم موجودگی یا پھر سیوریج کے مسائل سے ۔ اب وزیر ریلوے ، کمشنر کراچی اور میئر کراچی روز ریلوے ٹرالی میں بیٹھ کر سرکلر ریلوے کی گمشدہ لائنوں پر سیر سپاٹا کرتے ہیں ، دھوپ کے چشمے پہن کر فوٹو کھنچواتے ہیں اور اخبارات میں کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کی خبریں چھپواتے ہیں ۔
کراچی سرکلر ریلو ے ایک ٹیسٹ کیس ہے جس کی مدد سے ہم جان سکتے ہیں کہ عالمی بینکار کس طرح کسی بھی ملک کی معیشت پر اور پھر اس کی اراضی پر قابض ہوتے ہیں ۔ سب سے پہلے تو دیکھتے ہیں کہ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے کیا فوائد ہوسکتے ہیں اور پھر اس پروجیکٹ کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں ۔
کہا جارہا ہے کہ کراچی کی آبادی بے انتہا بڑھ چکی ہے اور اس میگا سٹی کے ٹرانسپورٹ کے مسائل حل کرنے کے لیے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی ضروری ہے ۔ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی یا ازسرنو شروع کرنے کے لیے تخمینی لاگت تو موجود ہے جس میں ہر روز اضافہ ہوجاتا ہے مگر اس حوالے سے کوئی رپورٹ منظر عام پر نہیں ہے کہ اس کے چلنے کے بعد یہ کتنی منافع بخش ہوگی یا کتنی خسارے میں جائے گی ۔ اس طرح کی بھی کوئی رپورٹ دستیاب نہیں ہے کہ اس میں کتنے مسافر یومیہ سفر کریں گے اور اس سے روڈ ٹرانسپورٹ کے بوجھ میں کتنی کمی آئے گی ۔ جس وقت کراچی سرکلر ریلوے چلائی گئی تھی اس وقت شہر تقریبا اس کی پٹری کے آس پاس ہی آباد تھا ۔ ڈرگ روڈ ، ملیر ، لانڈھی دور افتادہ اور نواحی علاقے تصور کیے جاتے تھے اور انہیں شہر سے ملانے کے لیے سرکلر ریلوے ایک بہترین ذریعہ تھا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ شہر میں اضافہ ہوتاگیا اور نواحی علاقے بھی شہری حدود میں شامل ہوگئے تو سرکلر ریلوے کی افادیت آہستہ آہستہ ختم ہونا شروع ہوگئی اورشہریوں نے اس کا استعمال رفتہ رفتہ کم کردیا ۔ اس کے مسافروں میں واضح کمی کی بناء پر کراچی سرکلر ریلوے کے ڈبے اکثر خالی ہی ہوتے ۔ بعد ازاںپاکستان ریلوے نے اس سروس کی افادیت نہ ہونے اور بھاری خسارے کی وجہ سے اسے بند کردیا ۔
اس وقت کراچی شہر بے ہنگم طریقے سے پھیل چکا ہے ۔ اس کی ایک ایک آبادی ہی 25 سے 30 لاکھ افراد پر مشتمل ہے جسے کراچی سرکلر ریلوے تک کوئی رسائی ہی نہیں ہے ۔ اورنگی ٹاؤن، سرجانی ٹاؤن، نارتھ کراچی ، نیو کراچی ، بلدیہ سعید آباد، ناظم آباد سے لے کر پرانے شہر تک کا علاقہ نصف سے زیادہ گلشن اقبال ، گلستان جوہر اور اس سے آگے تک ساری آبادیاں ، کورنگی کراسنگ سے آگے کی ساری آبادی جس میں بھٹائی آباد بھی شامل ہے، اعظم بستی ، محمودآباد، اختر کالونی وغیرہ وغیرہ ۔ اس طرح کراچی سرکلر ریلوے سے شہر کی آبادی کا چند فیصد ہی مستفید ہونے کی پوزیشن میں ہوگا ۔ یہ چند فیصد بھی اس سروس کو اسی وقت استعمال کرے گا ، جب یہ ریلوے سروس اسے اس کے مطلوبہ وقت اور مطلوبہ مقام تک کے لیے میسر ہو ۔ اگر ڈرگ کالونی میں اس ریلوے اسٹیشن کے پاس رہنے والے شخص کو کسی ایسے علاقے میں جانا ہو ، جہاں پر ریلوے اسٹیشن نہ ہو یا پھر اس کے وقت کے مطابق ٹرین نہ آرہی ہو، تب بھی وہ شخص یہ سروس استعمال کرنے سے گریز ہی کرے گا ۔ بھاری
مالی خسارے کے باوجود لاہور اور اسلام آباد میں میٹرو بس سروس اور اورنج ٹرین اس لیے مسافروں سے ہر وقت لدی پھندی نظر آتی ہیں کہ یہ ان علاقوں سے گزرتی ہیں جہاں پر آبادی ہے اور جہاں پر لوگوں کی آمدورفت ہے ۔ اس کی دوسری وجہ میٹرو بس سروس اور اورنج ٹرین سروس کی ہر چند منٹ کے بعد دستیابی ہے ۔ کراچی سرکلر ریلوے سروس میں سے یہ دونوں چیزیں غائب ہیں ۔ سیدھی سی بات یہ ہے کہ اگر اس ریلوے سروس سے سفر کرنے والوں کی تعداد مناسب ہوتی تویہ بند ہی نہ کی جاتی ۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسے پروجیکٹ جس میں پہلے دن سے ہی خسارے کا اندیشہ ہے تو پھر اس کے لیے وفاقی حکومت ، صوبائی حکومت ، شہری حکومت سمیت ہر ادارہ اتنا متفکر کیوں ہے ؟ اس کی واحد وجہ اس پروجیکٹ میں بھاری سرمایہ کاری اور اس کے نتیجے میں ملنے والا متوقع بھاری کمیشن ہے ۔
کراچی سرکلر ریلوے سی پیک کے تحت بحال کی جارہی ہے ۔ سی پیک کے ابتدائی پروجیکٹس میں کراچی سرکلر ریلوے کا کوئی تذکرہ نہیں تھا تاہم بعد میں کراچی سرکلر ریلوے کو بھی اس میں شامل کردیا گیا ہے ۔ جلد ہی اس پر کام بھی شروع ہوجائے گا اورکراچی سرکلر ریلوے کا ایک زبردست افتتاح بھی ہوجائے گا جسے کراچی کے شہریوں کے لیے وفاق کی طرف سے تحفہ قرار دیا جائے گا ۔
کراچی سرکلر ریلوے کیوں کر عالمی بینکاروں کا وہ ہتھیار ثابت ہوگی جس سے کسی بھی ملک کی معیشت اور پھر اس کی اراضی پر قبضہ کرلیا جاتا ہے ۔ اس پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔ ا