کراچی سرکلر ریلوے

270

سی پیک منصوبے میں ریلوے کا کوئی تذکرہ ہی نہیں تھا ۔ اگست 2016 میں پاکستان ریلوے کی طرف سے پہلی مرتبہ کراچی تا پشاور مین لائن کو ڈبل کرنے اور بہتر کرنے کی درخواست کی گئی ۔ اس درخواست میں کراچی سرکلر ریلوے یا کسی اور پروجیکٹ کا کوئی تذکرہ نہیں تھا ۔ مارچ 2018 میں پاکستان ریلوے نے کراچی میں اپنے یارڈز کی حالت بہتر بنانے اور انہیں مین لائن اور بندرگاہوں تک رابطے کو بہتر بنانے کی ایک اور درخواست کی ۔ ان دستاویزات میں کراچی سرکلر ریلوے کا تذکرہ کیا گیا ۔ کہا گیا کہ کراچی سے گوادر تک مال بردار ٹرین چلانے کی فزیبیلیٹی رپورٹ بناتے وقت کنسلٹنٹ کراچی سرکلر ریلوے کی ضروریات کو بھی ذہن میں رکھے جو وزیر مینشن سے کراچی سٹی اور کراچی سٹی سے ڈرگ روڈ تک ہے ۔ آئندہ اجلاس میں مشترکہ رابطہ کمیٹی نے کراچی سرکلر ریلوے کا منصوبہ بھی سی پیک کے تحت منظور کرلیا ۔ جب سے اب تک کراچی سرکلر ریلوے کی کوئی فزیبیلیٹی رپورٹ ہی منظر عام پر نہیں آئی کہ نئے منصوبے کے تحت کون سا حصہ آپریٹو ہوگا،کتنی نئی لائنیں پڑیں گی ، وغیرہ وغیرہ ۔ ابھی تک تو کراچی سرکلر ریلوے کی زمین ہی متنازعہ ہے ۔سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ نے کبھی سرکلر ریلوے لائنوں والی زمین ریلوے کو فروخت ہی نہیں کی جبکہ پاکستان ریلوے کا اصرار ہے کہ زمین اسی کی ملکیت ہے ۔ 2002 میں جب کراچی سرکلر ریلوے کے لیے جنرل پرویز مشرف نے اسلام آباد میں اجلاس طلب کیا تھا تو اس وقت کے گورنر سندھ محمد میاں سومرو نے سندھ بورڈ آف ریونیو کے ریکارڈ سے ثابت کیا تھا کہ زمین حکومت سندھ کی ملکیت ہے جبکہ محکمہ ریلوے کے پاس کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں تھا ۔
سی پیک کی ویب سائیٹ پر جائیں تو وہاں پر موجود پروجیکٹس میں ریلوے کا ایک ہی منصوبہ موجود ہے جو مین لائن کو کراچی تا پشاور ڈبل کرنے کا ہے ۔ اس منصوبہ کی لاگت کا تخمینہ 872 ملین ڈالر لگایا گیا ہے ۔ اس منصوبے کے تحت 1830 کلومیٹر طویل ریلوے لائن کو بہتر کیا جائے گا، اور اس میں جہاں ضرورت ہوگی ، اسے ڈبل کیا جائے گاجبکہ سگنل کو کنٹرول کرنے کا مرکزی سسٹم بھی لگایا جائے گا۔ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد مسافر ٹرینوں کی رفتار65 کلومیٹر فی گھنٹہ سے بڑھ کر 160 کلومیٹر تک ہوجائے گی جبکہ مال بردار گاڑیوں کی رفتار بڑھ کر 120 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوجائے گی۔ سی پیک کی ویب سائیٹ پر کراچی تا گوادر مال بردار گاڑیوں کے لیے نئی ریلوے لائن یا کراچی سرکلر ریلوے کا کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے ۔ 2001 میں انجینئرنگ کنسلٹنٹ انٹرنیشنل لمیٹڈ (ECIL) نے ضرور اس پر کام کیا تھا ۔ ECIL نے بھی اس منصوبے کو فائدہ مند بنانے کے لیے کئی نئی لائنیں جس میں ناظم آباد تا ناگن چورنگی جیسی ریلوے لائن بھی شامل تھی کے بغیر اس منصوبے کی افادیت پر تحفظات کا اظہار کیا تھا ۔ اسی طرح تجویز کیا گیا تھاکہ کراچی سرکلر ریلوے کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ بس ریپڈ سسٹم بھی بنایا جائے بصورت دیگر مسافر اسٹیشن سے اتر کر منزل مقصود پر نہیں پہنچ پائیں گے اور اس طرح سے یہ منصوبہ ناکامی کا شکار ہوجائے گا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی ٹرانسپورٹ کے مسائل کا شکارہے ۔ تاہم اس کے لیے بہترین حل لائٹ مونو ٹرین ہے ۔ کراچی میں موٹر وے کے لیے اسٹرکچر تیار ہی کیا جارہا ہے ۔ اس پر بسیں چلانے کے بجائے اگربجلی سے چلنے والی مونو لائٹ ٹرین چلا دی جائے تو اس مسئلے کو باآسانی حل کیا جاسکتا ہے ۔ بجلی سے چلنے کی بناء پر اس پر لاگت بھی کم آئے گی ۔ اگر یہ ٹرین اپنے اسٹاپ پر ہر چار منٹ کے وقفے سے موجود ہو تو کراچی کی روڈ ٹرانسپورٹ کا نصف بوجھ اس پر منتقل ہوجائے گا ۔ اس کے لیے مزید کسی سرمایہ کاری یا قرض کی بھی ضرورت نہیں ہوگی ۔ اگر کراچی سرکلر ریلوے کی زمین ہی مارکیٹ ریٹ پر فروخت کردی جائے تو نہ صرف بجلی سے چلنے والی ٹرین کے لیے مزید کسی سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ دیگر علاقوں میں بھی یہ سہولت مہیا کی جاسکے گی ۔، چونکہ یہ منصوبہ خسارے کا شکار نہیں ہوگا ، اس لیے کسی حکومت پر بوجھ بھی نہیں ہوگا ۔
اس کے باوجود کہ کراچی سرکلر ریلوے کا منصوبہ کہیں سے بھی کامیاب نہیں ہے ، اس پر کام تیزی سے جاری ہے ۔ ایسے ہی کئی منصوبے چین دیگر ممالک میں بھی شروع کرکے تکمیل تک پہنچا چکا ہے مگر اس کے نتائج پر تو نظر ڈالیں ۔ مالدیپ میں چین نے ایک جزیرے پر نیا ائرپورٹ تعمیر کیا پھر اس جزیرے سے دارالحکومت مالے تک پل بھی تعمیر کیا ۔ نتیجہ کیا نکلا کہ ائرپورٹ پر اتنی آمدو رفت نہیں تھی کہ وہ اپنے خرچے نکال سکتا اس لیے چین نے قرض کے بدلے مالدیپ کے 16 جزائر پر قبضہ کرلیا ۔ تاجکستان میں سی پیک کی طرز پر کام شروع کیا اور تکمیل تک بھی پہنچادیا ۔ تاجکستان قرض ادا نہیں کرسکا اس لیے جس علاقے میں ترقیاتی کام کیا تھا اس سمیت ایک ہزار کلومیٹر رقبہ تاجکستان سے چین کے قبضے میں چلا گیا ۔ سری لنکا کی بندرگاہ ہمبنٹوٹا پر گوادر کی طرح نئی بندرگاہ تعمیر کی ۔ سری لنکا کی حکومت قرض ادا نہیں کرسکی ۔ اب ہمبنٹوٹا کی بندرگاہ چین کے قبضے میں ہے ۔ اس طرح کی کئی اور داستانیں ہیں ۔ یہ چین کے طریقہ کار میں شامل ہے کہ پہلے احمقانہ قسم کے ناکام منصوبے مکمل کرو اورجب اس پر قرض لینے والے ادا کرنے سے معذور ہوجائیں تو اس علاقے پر قبضہ کرلو ۔
ایک بات کی پھر سے وضاحت کہ یہ قرض چینی حکومت نہیں دیتی ہے ۔ یہ قرض چینی بینک دیتے ہیں جن کے مالکان اور آئی ایم ایف اور دیگر بینکوں کے مالکان ایک ہی ہیں ۔ چینی حکومت تو خود ان بینکوں کی مقروض ہے ۔ اس طرح قرض کے بدلے ممالک پر قبضہ چین کا نہیں ان بینکوں کا ہورہا ہے ۔ بہتر ہے کہ صورتحال کو سمجھا جائے ۔ یہ قرض ہی ہے جس نے پاکستان کی وزارت خزانہ کو آئی ایم ایف کے حوالے کردیا ہے ۔ اگر صورتحال یہی رہی تو خاکم بدہن گوادر ، گلگت و بلتستان سمیت وطن عزیز کے کئی حصے چینی بینکوں کی عملداری میں ہوں گے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس کام کے لیے قرض لیا گیا ہوتا ہے وہ بھی ناکام پروجیکٹ ہی ہوتا ہے اور کسی کام کا نہیں ہوتا ۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ہشیار باش ۔