فلاح انسانیت ہماری میراث ہے

198

غزالہ عزیز
آگے والا رکشہ رُک رُک کر چل رہا تھا۔ شاید انجن میں کوئی خرابی تھی۔ اس کے ساتھ چلنے والے موٹر سائیکل سوار نے ایک پائوں اُس کے پیچھے رکھا ہوا تھا۔ یعنی وہ اُسے دھکا دے رہا تھا، بڑا مشکل کام تھا، موٹر سائیکل کا بیلنس رکھتے ہوئے ایک پائوں سے دھکا دینا۔ ایک سگنل پر میرے رکشے والے نے بھی اُس رکشے کے پیچھے آکر اپنا پائوں باہر نکالا اور اُس کے پیچھے رکھ دیا۔ اب دھکا دینے میں موٹر سائیکل سوار کے ساتھ وہ بھی شامل تھا۔ یوں اُس کا کام آسان ہوگیا اور بیمار رکشے کی رفتار بڑھ گئی۔ کئی سگنل تک ایسا ہوتا رہا۔ اگلے سگنل پر ہمیں سیدھا جانا تھا اور وہ بیمار رکشے والے اور موٹر سائیکل سوار کو بائیں مڑنا تھا، لہٰذاا وہ مڑ کر نظروں سے دورہوتے گئے۔
میں سوچ رہی تھی کہ میرا رکشے والا اور وہ موٹر سائیکل سوار دونوں اپنی رفتار بڑھا سکتے تھے اپنا وقت اور پٹرول دونوں بچا سکتے تھے لیکن انہوں نے اُس بیمار رکشے کے لیے اپنی رفتار کم رکھی۔ خطرہ مول لیا اور مستقل مزاجی سے اُسے دھکا دیتے رہے۔ مزے کی بات یہ کہ آخیر تک کسی میں کسی ایک لفظ کا بھی تبادلہ نہ ہوا۔ کسی نے کسی سے کچھ نہیں کہا۔ بس محسوس کیا اور اپنی مرضی سے ایک دوسرے کی مشکل کو سمجھ کر مدد کی۔ میں سوچ میں گم تھی۔ آج کے دور میں تو یوں لگتا ہے کہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر پاکستان اور پاکستانی قوم میں بُرائیاں تلاش جارہی ہیں کیا اپنے کیا پرائے سب ہی مقدور بھر اس میں حصہ ڈال رہے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ صورت حال تو کچھ اور بتارہی ہے کہ ہماری قوم ایسا پُرخلوص جذبہ رکھنے والی قوم ہے۔ بے غرضی، بے لوث مدد اور خدمت کے جذبے کی امین ہے، یوں دل سے دل کی باتیں کہہ سن لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بغیر کسی احسان مندی اور شکریہ کے دو بول کے… اس طرح اپنی جان کو مشکل میں ڈال کر مدد کا جذبہ رکھتے ہیں۔ یقینا ایسا ہے۔ خدمت اور فلاح کے کاموں کے لیے پاکستانی قوم بہت کشادہ دل ہے۔ اس کی ایک مثال الخدمت فائونڈیشن ہے جو مختلف میدانوں میں خدمت کی مثال قائم کررہی ہے۔ سب سے بڑھ کر تعلیم کیوں کہ تعلیم ایک ایسا ذریعہ ہے جس کے ذریعے قوم کے ہر فرد کو ایک نگینہ بنایا جاسکتا ہے ہمارے ہاں تعلیمی نظام کی کیفیت ایسے مریض کی سی ہے جو وینٹی لیٹر پر پڑا ہو، غریب اپنی غربت کے ہاتھوں مجبور ہے اور امیر اپنے پیسے سے سب کچھ حاصل کرنے کے چکر میں ہے ایسے میںالخدمت مستحق بچوں کے لیے جو تعلیمی خدمات مہیا کررہی ہے وہ حیران کن ہے۔ انہوں نے عام لوگوں کے تعاون سے اسکول، اسکالر شپ ہاسٹلز سڑکوں پر کوڑا اٹھانے اور محنت مزدوری اور آوارہ پھرنے والے بچوں کے لیے چائلڈ پروٹیکشن سینٹر بنائے ہیں۔ لاہور میں الخدمت چائلڈ پروٹیکشن سینٹر سبزہ زار میں بنیادی روبوٹکس کے حوالے سے تعلیم کا آغاز کردیا گیا ہے۔ جن کے ہفتہ وار اسباق کے لیے مختلف آئی ٹی یونیورسٹیوں کے طلبہ سے تعاون حاصل کیا گیا ہے۔
ان کوششوں کی خاص بات یہ ہے کہ الخدمت کسی بھی کام کو بغیر منصوبہ بندی کے نہیں کرتی، شروع کرنے کے بعد اس کو کامیابی سے آگے بڑھانے کے لیے مستقل اور مربوط کوششیں جاری رکھتی ہے۔ لہٰذا چائلڈ پروٹیکشن سینٹرز بنانے کے بعد ہر سال ’’افیکٹو مینجمنٹ آف چائلڈ پروٹیکشن سینٹرز‘‘ کے عنوان سے ورکشاپ منعقد کرتی ہے تا کہ سینٹرز کی کارکردگی کا مستقل بنیادوں پر جائزہ لیا جائے اور وہاں کے بچوں کے لیے کورس اور سرگرمیوں پر مشتمل ایک کیلنڈر تیار کرلیا جائے۔ یتیم بچوں کی کفالت کا پروگرام الخدمت پورے ملک میں دو طرح سے کر رہی ہے ایک ’’آغوش‘‘ کے نام سے یتیموں کے لیے رہائش، تعلیم اور مکمل کفالت کا نظام ہے جس میں باقاعدہ ماہانہ بنیادوں پر طبی معائنہ تعلیمی ٹورز اور بچوں کی جسمانی اور نفسیاتی نشوونما کا دھیان رکھا جاتا ہے۔ دوسرا فیملی سپورٹ پروگرام کے تحت یتیم بچوں کی کفالت کا ان کے گھروں میں انتظام کیا جاتا ہے۔ الخدمت کے تحت یہ صرف آنے والی نسلوں کے لیے تعلیم کی کوششیں ہیں اس کے علاوہ صحت پروگرام کے تحت پورے ملک میں اسپتال، کلینک، ڈائیگناسٹک سینٹر، زچہ بچہ سینٹر، بلڈ بینک اور ایمبولینس سروس کا نظام چلایا جارہا ہے۔ مواخات کے عنوان سے ضرورت مند محنت کرنے والے بیروزگار لوگوں کو چھوٹے قرضے فراہم کیے جاتے ہیں۔ جن کا مقصد لوگوں کو
اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہے تا کہ آج اگر وہ مدد حاصل کررہے ہیں تو کل وہ مدد دینے والے بنیں۔ اسی طرح سماجی خدمات کے تحت جیلوں میں قیدیوں کی تعلیم اور بہبود کے لیے کام کیا جارہا ہے۔ کمپیوٹر کورسز کرائے جاتے ہیں، صحت کی ضروریات کی فراہمی رمضان، عید، بقر عید پر تحائف فراہم کیے جاتے ہیں۔ صاف پانی ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہر ایک کے لیے مستقل پریشانی کا باعث ہے۔ گندے پانی کی وجہ سے بیماری عام ہوتی ہے، مہنگا علاج ایک مستقل درد سر بن جاتا ہے، الخدمت کے تحت پورے ملک میں واٹر فلٹریشن پلانٹ لگائے گئے ہیں، کنوئوں کی کھدائی اور ہینڈ پمپس کی تنصیب کی گئی ہے، خاص طور سے تھر میں جہاں ایک کنواں ایک بستی کے لیے پانی کی فراہمی کا سبب بن جاتا ہے۔
الخدمت کا کہنا ہے کہ ان کی خدمات بلاتفریق رنگ و نسل، ذات پات اور مذہب کے فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ ایک مکمل خود مختار غیر سرکاری اور غیر سیاسی ادارہ ہے، اُن کے اکائونٹ ہر سال باقاعدگی سے آڈٹ کرائے جاتے ہیں، جن کا جائزہ ہر ایک لے سکتا ہے۔ الخدمت کا کہنا ہے کہ دنیا میں الخدمت کو دیے جانے والے عطیات صرف فلاحی اور سماجی امور کی انجام دہی کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ الخدمت کی خدمات پاکستانی قوم کی خدمات ہیں، یقینا پاکستانی قوم انسانی خوبیوں کے لحاظ سے ایک اعلیٰ درجے کی قوم ہے، خدمت انسانیت ہماری قومی خوبی اور میراث ہے۔ ہماری نوجوان نسل جس کو کل ملک و قوم کی باگ ڈورسنبھالنی ہے اس جذبے کو مزید نکھارنے اور آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔