پورس کے ہاتھی

373

محترمہ فردوس عاشق اعوان اب جس منصب پر ہیں اس کا تقاضا ہے کہ ہر معاملے پر ضرور بولیں خواہ مدعا عنقا ہو ان کے عالم تقریر کا۔ ان سے پہلے ہر بات پر بولنے کا منصب فواد چودھری کے پاس تھا جنہوں نے اب ہاتھا پائی شروع کردی ہے۔ ان کے لیڈر کا حکم ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے، خواہ دوسرے کے ہاتھ میں اینٹ نہ ہو، احتیاطاً پتھر اچھال دیا جائے۔ ان کو سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت دی گئی تھی جس میں بولنا نہیں کام کرنا ہوتا ہے مگر انہوں نے اس میں بھی باتیں بنانے کا موقع نکال ہی لیا۔ آدمی ہنر مند ہیں۔ اس پر ایک واقعہ یاد آگیا۔
ایک بادشاہ کا درباری رشوت لینے کا موقع نکال ہی لیتا تھا۔ ظل سبحانی نے اس کا کئی محکموں میں تبادلہ کیا، کبھی اپنا ترجمان بنایا اور کبھی رویت ہلال کے لیے کیلنڈر بنانے کی ہدایت کردی لیکن موصوف اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے تو تنگ آکر انہیں دریار کی لہریں گننے پر لگادیا کہ ساحل پر بیٹھ کر لہروں کی گنتی کرتے رہو۔ اب جو کوئی کشتی قریب سے گزرتی تو اپنے وقت کا یہ چودھری کشتی والوں کو پکڑ لیتا کہ تم نے لہروں کی گنتی میں خلل ڈالا ہے، جرمانہ ادا کرو۔ آخر بادشاہ نے اسے سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت دے دی کہ ملک میں اس کا وجود ہی نہیں تھا۔
فواد چودھری نے فیصل آباد میں شادی کی ایک تقریب میں ایک سینئر صحافی کے پیچھے سے آکر انہیں تھپڑ مار دیا اور کچھ کا کہنا ہے کہ یہ تھپڑ نہیں مکا تھا۔ اس وقت دونوں آمنے سامنے بھی نہیں تھے کہ باڈی لینگویج یا بدن بولی ہی سے مشتعل ہوجاتے۔ اینکر پرسن سمیع ابراہیم کا کہنا ہے کہ فواد چودھری پیچھے سے کسی کو گالیاں دے رہے تھے، مڑ کر دیکھا تو ان شیریں لبوں کا ہدف وہی تھے۔ اتنے میں انہوں نے آگے بڑھ کر تھپڑ یا گھونسہ جڑ دیا۔ سمیع ابراہیم گر پڑے اور ان کا چشمہ بھی ایک طرف جا پڑا۔ شادی میں شریک ایک ایجنسی کے اعلیٰ افسر چشم دید گواہ ہیں جو حملے کے وقت سمیع ابراہیم سے گفتگو کررہے تھے۔
اس پر فواد چودھری کا بڑا دلچسپ ردعمل ہے کہ مکا مارنے پر مقدمہ نہیں بنتا، صرف سوری کہہ دینا کافی ہے۔ کاش فواد چودھری دوسروں کو بھی سوری کہنے کا موقع دیں۔ سمیع ابراہیم نے تھانے میں رپورٹ تو درج کرائی ہے لیکن پولیس ایک وفاقی وزیر کے خلاف اتنا ہی کرسکتی ہے۔ بھٹو صاحب کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی تھی تو وہ گلے پڑ گئی ورنہ تو بھٹو صاحب ایف آئی آر کیا پورا تھانہ ہی گم کردیتے۔ لیکن انہیں یقین تھا کہ ان کے خلاف کچھ نہیں ہوسکتا، ان کی کرسی بڑی مضبوط ہے۔ اور فواد چودھری کو وزیراعظم کی آشیر واد حاصل ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیں، خود ٹینشن نہ لیں۔ یعنی دوسروں کو دیں۔ پھر یہ بھی فرمایا کہ ’’عوام کی زندگی میں خلل ڈالا تو قانون حرکت میں آئے گا‘‘۔ سمیع ابراہیم کا شمار غالباً عوام میں نہیں ہوتا۔ چناں چہ قانون حرکت میں نہیں آیا۔ تھوڑی سی حرکت وفاقی وزیر اعظم خان سواتی کے معاملے میں آئی تھی۔ انہوں نے تنازع سے بچنے کے لیے استعفا دے دیا۔ چناں چہ انہیں پھر گلے لگالیا گیا۔ حالاں کہ جو حرکت کی تھی اس پر سزا تو بنتی تھی۔
فواد چودھری کا کہنا ہے کہ سمیع ابراہیم انہیں یہودی ایجنٹ کہتے ہیں۔ بہت بری بات ہے، انہیں کہنا نہیں چاہیے تھا۔ ایک مثال ہے باندی کو باندی کہا وہ بگڑ گئی اور شہزادی کو باندی کہا تو وہ ہنس پڑی۔ آدمی کسی الزام پر اسی وقت برہم ہوتا ہے جب کچھ حقیقت ہو یا ظرف تنگ ہو۔ فواد چودھری ماشاء اللہ خوب پلے ہوئے ہیں۔ ذرا اپنا جثہ دیکھیں اور سمیع ابراہیم کو دیکھیں جن کے بال کھچڑی ہوگئے ہیں اور جسمانی طور پر بھی فواد چودھری کے مقابلے کے نہیں۔ کمزور پر حملہ کرنے والا خود کمزور ہوتا ہے۔ سنا ہے کہ عمران خان نے انہیں پیار سے سمجھایا ہے کہ ایسا نہیں کیا کرتے۔ کلام نرم و نازک ان پر کیا اثر کرے گا۔ سمجھانے کا کام وزیراعظم نے فردوس عاشق اعوان کو سونپا ہے۔ عمران خان نے صحابہ کرامؓ کی توہین کی تو فردوس عاشق اعوان نے یہ کہہ کر بات ٹال دی کہ وزیراعظم نے الفاظ کا انتخاب صحیح نہیں کیا۔ لیکن وزیراعظم نے یہ کام کس معاملے میں کیا ہے؟ جاپان اور جرمنی کو جنگ عظیم میں ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کیا پھر دونوں کی سرحدیں ملادیں۔ تازہ ترین کارنامہ بدھ کو سامنے آیا۔ انہوں نے رابندر ناتھ ٹیگور کا ایک مقولہ خلیل جبران کے کھاتے میں ڈال دیا۔ یہ بھی بعید نہیں کہ وہ نام کی وجہ سے خلیل جبران کو مسلمان مفکر سمجھتے ہوں‘ پوچھ کر دیکھ لیجیے۔ بھائی عمران خان کرکٹ کھیلنے کے علاوہ کچھ پڑھ بھی لیا ہوتا۔ لیکن ان کے ساتھی بھی تو ایسے ہی ہیں۔ وفاقی وزیر جناب فواد چودھری اپنے آبائی شہر میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے فرمارہے تھے کہ یہ وہی شہر ہے جہاں راجا پورس نے سکندر کو شکست دی تھی۔ اس پر شاید جہلم والے بھی ہنسے ہوں کہ راجا پورس کو نہ صرف شکست ہوئی تھی بلکہ وہ زندہ گرفتار بھی ہوگیا تھا۔ وہ چوں کہ جہلم کا تھا اس لیے فواد چودھری کو اس کی شکست گوارا نہیں ہوئی اور اسے فاتح قرار دے دیا۔ پورس اور سکندر میں جو مکالمہ ہوا اسے نامعلوم تاریخ دانوں نے اس طرح بیان کیا ہے کہ سکندر نے بیڑیوں میں جکڑے ہوئے پورس سے پوچھا کہ بتا تیرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ اور پورس نے جواب دیا ’’وہی جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کے ساتھ کرتا ہے‘‘۔ اس پر سکندر نے پورس کو چھوڑ دیا۔ یہ جنگ 312 قبل مسیح میں ہوئی تھی۔ ممکن ہے کہ سکندر نے اس وقت پنجاب میں رائج زبان سیکھ لی ہو لیکن پورس کو تو یونانی زبان نہیں آتی تھی، پھر یہ مکالمے کس زبان میں ہوئے اور اس موقع پر کون سا مورخ موجود تھا؟۔
بہرحال، اس جنگ نے اردو، ہندی کو ایک مثل ضرور دے دی ہے ’’پورس کے ہاتھی‘‘۔ پورس کے ہاتھیوں نے اپنی ہی فوج کو نقصان پہنچایا تھا۔ یہی صورت حال آج ہے۔ پورس کے موجودہ ہاتھی اپنی ہی فوج اور راجا کو نقصان پہنچارہے ہیں۔ فواد چودھری شاد و آباد رہیں۔ خبریں تو یہ بھی ہیں کہ وہ کسی اور فوج میں جانے کے لیے پرتول رہے ہیں۔