ایران پر بزدل امریکا کا سائبر حملہ

224

 

 

میں نے اپنی آنکھوں سے کبھی یہ منظر نہیں دیکھا کہ دنیا کے طاقتور انسانوں نے، خواہ ان کا تعلق کسی بھی قوم و مذہب، نسل اور ذات سے رہا ہو، کبھی ان لوگوں پر ہاتھ اٹھا ئے ہوں جو بااعتبار طاقت و فنِ پہلوانی سے ناواقف و نا شناس ہوں۔ آئے دن آزادانہ پہلوانی جس کو عام فہم زبان میں فری اسٹائل کہا جاتا ہے، پہلوان عالم جنون میں ان افراد پر ٹوٹ پڑے ہوں جو اس فن سے قطعاً ناواقف ہوں اور ان کی ہڈیاں پسلیاں توڑ کر رکھ دی ہوں۔ کشتی کے دوران اکثر ریسلر آپے سے باہر بھی دیکھے گئے ہیں جس کے بعد وہ ہر اصول و قائدہ کو پس پشت ڈال کر گلی کے بدمعاشوں کی طرح ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے ہیں لیکن پھر بھی ان کا یہ جنون صرف مخالفوں ہی کے لیے ہوتا ہے۔ اپنے آپے سے اتنا باہر ہو جانے کے باوجود وہ کسی بھی قسم کا تشدد عام افراد یا رنگ میں موجود اس ریفریوں پر کرتے نظر نہیں آتے جو ان کے درمیان صلح صفائی کرانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں اور انہیں قوانین کا پابند رہنے کی تلقین کر رہے ہوتے ہیں۔
ان آنکھوں نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ قومی یا بین الاقوامی معیار رکھنے والے کھلاڑی گلی محلوں میں کھیلنے والی کسی ٹیم کے خلاف اپنے ہنر کا مظاہرہ کرکے فخر محسوس کر رہے ہوں۔ کی تمام ورلڈ کلاس ٹیمیں کمزور ٹیموں کے ساتھ نہیںاپنی پم پلہ ٹیموںکے ساتھ کھیل کر ہی خوش ہوا کرتی ہیں۔
اس مہذب دنیا کا ایک بہت مہذب کہلانے والا ملک ایسا بھی ہے جس کو ہمیشہ کمزوروں پر ہاتھ اٹھا کر ہی مزا آتا ہے لیکن اگر کوئی ملک بہت معمولی سا بھی اس کے ہم پلہ ہو تو وہ اس کی جانب آنکھ بھر کر اس لیے بھی نہیں دیکھتا کہ کہیں وہ اس طرح دیکھنے کو اپنی حمیت و غیرت کا کوئی مسئلہ نہ سمجھ بیٹھے۔ دنیا کا یہ تھرڈ کلاس ملک امریکا ہے جس نے جب بھی کسی پر ہاتھ اٹھایا، اپنے سے بہت غریب اور پسماندہ ملک پر ہی ہاتھ اٹھایا۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اس نے ذرا بھی مستحکم، مضبوط اور دفاعی ہتھیاروں سے لیس ملک کی جانب میلی آنکھ سے دیکھا بھی ہو۔ اس عظیم ملک کا نام امریکا بہادر ہے جس کی ساری بہادریاں نحیف و نا تواں ممالک ہی پر چلتی رہی ہیں۔
ویتنام کی مثال امریکا کے آگے ہاتھی اور مکھی جیسی بھی نہ تھی لیکن وہ وہاں اپنی ہیکڑی کا مظاہرہ کرتا رہا، عرب ممالک عسکری لحاظ سے کیا حیثیت رکھتے ہیں اور وہ 11 ہزار میل دور امریکا کا کیا بگاڑ سکتے ہیں لیکن وہ ان پر اپنے رعب و جلال کا سکہ جمانے کے درپے ہے۔ وہ افغانستان جو اپنے اندرونی اختلافات میں بری طرح جکڑا ہوا ہے وہ امریکا کا کیا بگاڑ سکتا تھا لیکن وہاں امریکا بہادر پوری قوت کے ساتھ قابض ہے اور اپنی بدمعاشی کی ہر حد کو پار کر چکا ہے۔
بدمعاشی کا بھی اپنا ایک الگ جنون ہوتا ہے۔ جنون کے ہر مظاہرے کے بعد یہ جنون کم ہونے کے بجائے فزوں تر ہوتاجاتا ہے۔ اس کی کوئی انتہا نہیں ہوتی کیوں کہ انسانوں کی چیخیں، بستیوں سے اُٹھتا دھواں، شہروں سے اٹھتے آگ کی شعلے اور خون کے بہتے دریا اس جنون کی تسکین کا باعث ہوا کرتے ہیں اور جب تک یہ سارے مناظر نگاہوں کے سامنے رقصیدہ رہتے ہیں، جذبہ جنونیت کی تسکین ہوتی رہتی ہے اور جوں ہی ان مناظر کی شدت میں کمی آنے لگتی ہے، مزاج برہم سے برہم تر ہونے لگتا ہے اور وہ فتنہ و فساد کے نئے نئے مناظر روشن کرنے کے بہانے تلاش کرنا شروع کر دیتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل عرب اور افغانستان میں بد معاشی کے یہ سارے میدان گرم تھے لیکن اب ان کی تپش کم سے کم تر ہوتی چلی جارہی ہے۔ اب اس جنونیت کی تسکین کے لیے کچھ نئے میدان سجانے کی اشد ضرورت ہے۔ یہی وہ جذبہ مجنونیت ہے جس کی وجہ سے بہادر امریکا کی نظر میں ترکی و ایران کانٹے کی طرح کھٹکنا شروع ہو گئے ہیں اور وہ ان ن دونوں ممالک کو اپنے جنون کی آگ کی لپیٹ میں لینے کے لیے بے چین و مضطرب ہے۔ کہاں امریکا دیو اور کہاں ایران نحیف و نا توانی کی تصویر۔ بدمعاشوں کو کسی کی لاغریت سے کیا مطلب ہو سکتا ہے کیونکہ اس کا مقصد اپنے جنون کی تسکین کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا اس لیے وہ ایران پر حملہ کرنے کے بہانے تلاش کر رہا ہے۔
گزشتہ دنوں اس نے الزام لگایا تھا کہ خلیج میں موجود بحری آئیل ٹینکروں پر جو حملہ ہوا تھا اور جس کے نتیجے میں کئی آئیل ٹینکرز تباہ ہوئے تھے ان کو ایران نے نشانہ بنایا تھا۔ یہ بات بہر صورت تحقیق طلب تھی لیکن صاحب بہادر نے کیونکہ فیصلہ سنادیا تھا اس لئے دنیا میں کس کی جرات کہ وہ اس کی تحقیق کا کہتا۔ پھر امریکا کا یہ دعویٰ سامنے آیا کہ ایران نے آزاد سمندر میں موجود اس کے ڈرون کو گرایا ہے۔ اس بات کو بہانا بنا کر اس نے ایران پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کی لیکن بقول صدر امریکا، ٹھیک دس منٹ قبل ایسا کرنے کا فیصلہ واپس لیا گیا۔ طبیعت کا شر کہاں ٹھنڈا ہوتا ہے، جسارت میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق امریکا نے ایران کے میزائل سسٹم پر سائبر حملہ کرکے اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے دعویٰ کیا کہ ہے کہ اس سائبر حملے کی مدد سے آن کمپیوٹر سسٹمز کو متاثر کیا گیا جن سے راکٹ اور میزائل لانچر کنٹرول کیے جاتے ہیں۔ اس خبر کی تصدیق بی بی نے بھی کی ہے۔ اس کی رپورٹ کے مطابق جمعرات کو صدر ٹرمپ کی جانب سے ایران پر فضائی حملے کرنے کا حکم واپس لینے کے بعد ایرانی ہتھیاروں کے نظام کو سائبر حملے کا نشانہ بنایا تھا۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق یہ سائبر حملہ ایران کی جانب سے امریکی ڈرون گرائے جانے اور خلیجِ عمان میں تیل کے ٹینکرز پر حملے کے ردِعمل میں کیا گیا۔
امریکا اب اس حد تک ہٹ دھر می پر اتر آیا ہے کہ وہ ساری دنیا کو اپنے زیر نگیں کرنا چاہتا ہے۔ خاص طور سے وہ ممالک جو اب بھی ترقی کی دوڑ میں بہت پسماندگی کا شکار ہیں اور عسکری لحاظ سے نہایت کمزور ہیں، امریکا ان پر اپنی پوری دسترس جمانے کی خواہش رکھتا ہے۔ وہ تجارت کریں تو اس کی قائم کی ہوئی حدوں میں رہ کر کریں۔ ان کے خارجی تعلقات اس کی ہدایات کے مطابق ہوں۔ ان کے داخلی معاملات بھی اس انداز کے ہوں جو امریکا وضع کرے۔ وہ اپنے دفاع کے لیے کوئی ہتھیار بنائیں بھی تو روایتی ہتھیار بنائیں۔ کھائیں پئیں تو ان سے پوچھ کر کھائیں پئیں حتیٰ کے سانس بھی وہ اتنی بار لیں جتنی مرتبہ لینے کے لیے ان سے کہا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایسے تمام ممالک کو جو جوہری صلاحیت حاصل کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں یا اس دوڑ میں شریک ہوکر دنیا کے برابر آنا چاہتے ہوں، ایسا کرنے سے باز رکھنا چاہتا ہی نہیں بلکہ ایسا نہ کرنے والے ممالک کے خلاف نہایت جارحانہ عزائم رکھتا ہے بلکہ وہ ان کو سر اُٹھا کر چلنے تک کی مہلت دینے کے حق میں نہیں۔
ایران ہو یا ترکی، وہ ابھی تک تو امریکا کی لگائی کسی بھی پابندی کو قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں اور اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ یہ بات امریکا کی شرپسندی کے لیے بہت ہی اذیت ناک ہے۔ یہ وہ آگ ہے جو اس کے سینے میں شعلہ جوالہ بنی ہوئی ہے۔ چناں چہ وہ ان دونوں ممالک کے لیے نہ صرف جارحانہ عزائم رکھتا ہے بلکہ کسی بھی وقت وہ ان پر حملہ بھی کر سکتا ہے لیکن حملہ کرنے میں جو شے سب سے بڑی رکاوٹ ہے وہ ایک جانب ایران اور ترکی کا حد سے زیادہ پختہ ارادہ ہے جو امریکا کو یہ خوف دلاتا رہتا ہے ان دونوں ممالک کے پاس کوئی نہ کوئی ایسا ہتھیار ضرور ہے جو خلیج میں موجود اس کے بحری بیڑے کے لیے تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ خاص طور سے وہ ایران کی جانب سے تو بہت ہی سہما ہوا ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت امریکا کا تازہ ترین سائبر حملہ ہے جو بقول امریکا، اس نے ایران کے میزائل اور راکٹ دفاعی نظام پر کیا ہے۔
امریکا کا یہ دعویٰ کتنا درست اور کتنا لغو، یہ تو آزاد میڈیا یا ایران ہی تصدیق کر سکتا ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ امریکا خواہ کتنا ہی ’’بہادر‘‘ کہلائے،اندر سے نہایت بزدل ہے جس کا واضح ثبوت ایران پر حملہ کرنے میں اس کا انتہائی محتاط رویہ ہے۔ یہ وہ ملک ہے جو عراق کو خاطر میں نہ لایا، افغانستان میں فوجیں اُتارنے میں دیر نہیں لگائی لیکن ایران پر حملہ کرنے میں امریکا کی پس و پیش اس کے دل کے خوف کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دیگر اسلامی ممالک ایران بننے کے لیے تیار ہیں یا ہاتھ باندھے رکھنے کے سابقہ فیصلوں پر قائم دائم ہیں۔