فواد چودھری کا سپرمین رنجیت سنگھ

446

لاہور میں ایک بڑی سرکاری افسر تھیں ستنام محمود سی ایس پی افسر تھیں۔ یہ 1976ء کی بات ہے۔ وہ ستنام کور سے ستنام محمود ہوگئی تھیں لیکن دل سے واہگرو کا خالصہ نہیں نکلا تھا۔ جب سکھ یاتری آتے تو حکومت ان ہی کو پروٹوکول کی ذمے داریاں دیتی تھی کہ نسبت ہے قریب کی۔ ان کے بھائی بھی لاہور آتے تھے جو کڑا، کنگھا، کچھا، کیس اور کرپان سے لیس ہوتے تھے۔ جب سکھ یاتریوں کے گرو گرنتھ صاحب کا پاٹھ کرتے تھے تو ستنام کی آنکھیں بھی نم ہوجاتی تھیں۔ ٹپکتے ہوئے آنسو انہیں ماضی کی یاد دلاتے اور یہ خواہش بھی ہوتی کہ وہ بھی پاٹھ شروع کردیں اور کچھ نہیں تو مورچھل لے کر گرنتھ صاحب کو پنکھا ہی جھل دیں۔ دل سے وہ ستنام کور ہی تھیں۔
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری جہلم والے کا ایک پیغام پڑھ کر ستنام محمود کی یاد آگئی۔ آپ بھی اس ’’گرو‘‘ کی باہنی سن لیں یا پڑھ لیں۔ موصوف نے یہ پیغام 27 جون کو دن کے ٹھیک 12 بجے نشر کیا ہے۔ لکھتے ہیں ’’آج پنجاب کے عظیم ترین (GREATEST) بادشاہ مہا راجا رنجیت سنگھ کی 180 ویں برسی ہے۔ ایک آنکھ والے (کانے) مہاراجا نے کابل سے دہلی تک بڑے کروفر سے حکومت کی اور وہ پنجابی سپرمین کی علامت تھے۔ مہا راجا انتظامی امور (گورننس) میں اصلاحات پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے‘‘۔
ستنام محمود نے اپنے دلی جذبات کو اس طرح نشر نہیں کیا لیکن فواد چودھری کو کھلی چھوٹ ہے۔ فواد چودھری نے تو اپنے آبائی علاقے جہلم میں جلسے کے دوران انکشاف کیا تھا کہ اسی مقام پر راجا پورس نے سکندر یونانی کو شکست دی تھی۔ ظاہر ہے یہ اپنے آبا کی عزت کا سوال تھا۔ لیکن رنجیت سنگھ سے ان کی کیا نسبت؟ اس کے بارے میں انکشاف کیا ہے کہ اس نے کابل سے دہلی تک حکومت کی تھی۔ کیا فواد چودھری کو علم سے نفرت ہے اور کیا انہوں نے کبھی تاریخ، جغرافیے کا مطالعہ ہی نہیں کیا یا وہ بھی اپنے سیاسی استاد حضرت عمران خان کی پیروی کرتے ہیں جو جرمنی اور جاپان کو دوسری جنگ عظیم میں ایک دوسرے کا حریف بنادیتے ہیں اور پھر دونوں کی سرحدیں ملادیتے ہیں۔ فواد چودھری نے پنجاب کے سب ظالم شخص کی حکومت کو کابل اور دہلی تک پہنچادیا۔ رنجیت سنگھ سے ان کی عقیدت اور محبت اپنی جگہ لیکن یہ شخص ایک لٹیرا تھا۔ جس نے ایک جتھہ جمع کرکے پہلے ملتان پر قبضہ کیا اور پھر لاہور سمیت پورے پنجاب پر قابض ہوگیا۔ فواد چودھری کے ممدوح نے پنجاب مسلمانوں سے چھینا تھا اور پھر ان کا قتل عام کیا۔ لیکن فواد چودھری مسلمانوں کے قاتل کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ ان کی غیرت ایمانی پر ہم کوئی سوال نہیں کریں گے لیکن پنجاب کے مسلمانوں کے قاتل کی تعریف کرنے پر خود اہل پنجاب کو فواد چودھری سے نمٹ لینا چاہیے۔
فواد چودھری کے اس عظیم ترین بادشاہ نے انتظامی امور میں کیا اصلاحات کیں، چودھری صاحب ان کی تفصیل بھی بتادیتے۔ ان اصلاحات میں شاید یہ بھی شامل ہو کہ اس نے اپنی ایک رانی جنداں کی فرمائش پر اذان دینے پر پابندی لگادی تھی کہ مہارانی کی نیند خراب ہوتی ہے۔ اس ’’عظیم لٹیرے‘‘ نے بادشاہی مسجد کو اپنے گھوڑوں کا اصطبل بنادیا تھا اور شاہی قلعہ سے تمام قیمتی پتھر نکال لیے تھے۔ لیکن فواد چودھری اس کی لوٹ مار کو سراہ رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مسجد کی بے حرمتی یا اذان پر پابندی سے چودھری صاحب کو کیا پریشانی ہوگی۔ فواد چودھری کو یہ بھی یاد نہیں کہ 1947ء میں تقسیم ہند کے موقع پر سب سے زیادہ قتل و غارت گری رنجیت سنگھ کے پیرو کار سکھوں ہی نے کی تھی۔ جن کے لیے آج کرتارپور راہداری کھولی جارہی ہے۔ 1947ء میں سکھ یہ بھی بھول گئے تھے کہ ان کی سب سے بڑی عبادت گاہ گردوارہ صاحب امرتسر کا سنگ بنیاد ایک مسلمان بزرگ حضرت میاں میر نے گرونانک کی خواہش پر رکھا تھا۔
سکھ کوئی علیحدہ سے قوم نہیں تھی۔ نہ یہ کہیں باہر سے آئے تھے، یہ ہندوئوں ہی کا حصہ تھے اور ہندوئوں ہی نے سازش کے تحت اپنی اولاد میں سے کچھ کو سکھ بنادیا تھا اور پھر انہیں مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا۔ تقسیم کے وقت سکھوں کے لیڈر بلدیو سنگھ نے ہندوئوں کا ساتھ دیا جس پر وہ بہت بعد میں پچھتاتے رہے۔ ہندوئوں نے اس کا بدلہ ایک سکھ کے ہاتھوں وزیراعظم اندرا گاندھی کے قتل پر اس طرح دیا کہ پورے ہندوستان میں سکھوں کا قتل عام کیا گیا۔ اندرا گاندھی نے خالصتان تحریک اور سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والا کے خلاف آپریشن بلیو اسٹار کے نام پر سکھوں کے لیے مقدس ترین عبادت گاہ دربار صاحب پر حملہ کروایا تھا اور سیکڑوں سکھ مارے گئے تھے۔ جس کے جواب میں اندرا گاندھی قتل کردی گئی۔ عجیب بات ہے کہ سکھوں کا تو قتل عام ہوا لیکن ایک ہندو ناتھورام گوڈسے نے جب ہندوئوں کے باپو اور ’’مہاآتما‘‘ موہن داس کرم چند گاندھی کو قتل کیا تو کوئی ردعمل نہیں ہوا۔ ناتھورام آج بھی آر ایس ایس اور بی جے پی کا ہیرو ہے۔
یہ بھی رنجیت سنگھ کے پیرو کار ہی تھے جنہوں نے 1857ء کی جنگ آزادی میں مجاہدین کے خلاف انگریزوں کا ساتھ دیا تھا۔ برطانوی قابض فوج میں زیادہ تر سکھ ہی تھے۔ جب مغلوں کی حکومت تھی تو وہ مسلمانوں سے لڑتے رہے۔ جس کی وجہ سے وہ عموماً جنگلوں میں چھپے رہتے تھے۔ اسی لیے کنگھا اور کرپان رکھنا ان کے لیے ضروری تھا۔ فواد چودھری کسی مستند تاریخ کے حوالے سے یہ ضرور بتائیں کہ کابل اور دہلی پر رنجیت سنگھ کی حکومت کب رہی۔
فواد چودھری کے اس عظیم بادشاہ اور پنجابی سپرمین کے دربار میں ہندوئوں کے علاوہ ایک مسلمان دانشور فقیر سید وحیدالدین بھی ہوتے تھے۔ دربار میں ایک ہندو نے شعر پڑھا:
مکے گیا، مدینے گیا، کربلا گیا
جیسا گیا تھا ویسا ہی چل پھر کے آگیا
رنجیت سنگھ نے سید وحید الدین سے کہا کہ اس کا جواب دیجیے۔ انہوں نے کہا مجھے جواب دینے کی ضرورت نہیں، شیخ سعدی بہت پہلے اس کا جواب دے چکے ہیں کہ:
خر عیسیٰ اگر بمکہ رود
چوں بیاید ہنوز خر باشد
حضرت عیسیٰ کا گدھا اگر مکہ ہو آئے تو واپسی میں بھی وہ گدھا ہی رہے گا۔ پتا نہیں چودھری صاحب کبھی مکہ گئے یا نہیں، عمران خان تو ہو آئے۔
ایک لطیفہ اور پڑھ لیجیے۔ رنجیت سنگھ ہی کے دربار میں کسی شریر درباری نے کہا کہ مسلمان کہتے ہیں ان کے قرآن میں سب کا ذکر ہے تو رنجیت سنگھ کا ذکر کہاں ہے؟ ایک آنکھ والے پنجابی سپرمین نے پھر فقیر سید وحید الدین کو جواب دینے کے لیے کہا۔ انہوں نے جواب میں یہ آیت پڑھی ’’وکان من الکافرین‘‘۔ کانَ کو کانا پڑھیں کہ رنجیت سنگھ کانا تھا۔ حیرت ہے کہ اس کے ممدوح نے اسے ’’ایک آنکھ والا‘‘ لکھنے کی جرأت کیسے کرلی تاہم اسے کانا نہیں کہا۔ شاید کانے کی انگریزی بھی یاد نہیں تھی۔ ہمارا مشورہ ہے کہ رنجیت سنگھ کی 180 ویں برسی کے انتظامات فواد چودھری کے سپرد کردیے جائیں اور ستنام محمود کی طرح انہیں سکھوں کے لیے پروٹوکول افسر مقرر کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ فواد چودھری کے اجداد کی مغفرت کرے، جانے وہ کون تھے۔ خود فواد چودھری بھی تو پنجابی سپرمین ہیں۔