اشرف غنی کو دو تہائی ووٹ دھاندلی کی بنیاد پر پڑے، حکمت یار

146

کابل(مانیٹرنگ ڈیسک)افغانستان کے صدارتی امیدوار گلبدین حکمت یار نے الزام عائد کیا ہے کہ گزشتہ ماہ ہونے والے صدارتی انتخابات میں افغان صدر اشرف غنی نے دھاندلی کے حربوں کا کھل کر استعمال کیا۔بقول ان کے، ’’اشرف غنی کو پڑنے والے ووٹوں کی دو تہائی بائیو میٹرک تصدیق کے بغیر اور دھوکا دہی کی بنیاد پر ڈالے گئے‘‘۔صدارتی انتخابات میں حکمت یار ایک سرکردہ امیدوار تھے، اور ان سات امیدواروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے انتخابی عمل پر اسی قسم کے الزامات لگائے ہیں۔بدھ کے روز ’وائس آف امریکا‘ کی نمائندہ عائشہ تنظیم کو دیے گئے انٹرویو میں، انھوں نے کہا کہ ’’انتخاب کے اس پہلے دور میں کوئی بھی امیدوار کامیاب نہیں ہوا۔ دونوں ٹیمیں (غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ) جیت کے غلط دعوے کر رہے ہیں۔ اگر صرف بائیو میٹرک کے تصدیق شدہ ووٹوں کو درست مانا جائے اور باقی مسترد کیے جائیں تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ غنی کی ٹیم تیسرے نمبر پر آئے گی‘‘۔دھاندلی کے معاملے پر انھوں نے کہا کہ ان کی سوچ اپنے اہم حریف عبداللہ عبداللہ سے ملتی ہے۔ ایسی صورت میں ان الزامات کو تقویت ملتی ہے کہ پولنگ سے پہلے اور بعد میں مبینہ طور پر غنی نے دھاندلی کے حربے استعمال کیے۔غنی کی ٹیم ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔ انتخابات کے روز اپنے خطاب میں خود اشرف غنی نے انتخابی اداروں پر زور دیا تھا کہ الیکشن سے متعلق شکایات کی تفصیلی چھان بین کی جائے۔آزاد تجزیہ کاروں نے جن میں کابل میں قائم ’افغانستان انالسٹس نیٹ ورک‘ شامل ہے، ووٹر ٹرن آؤٹ سے متعلق اب تک ظاہر کیے گئے اعداد و شمار پر بھی سوالات اٹھائے ہیں جب کہ کچھ اعداد کو ’’غیر حقیقی‘‘ قرار دیا گیا ہے۔مثال کے طور پر صوبہ ننگرہار میں ہفتے کے روز 309 پولنگ مراکز پر مجموعی ووٹر ٹرن آؤٹ 22813 بتایا گیا۔ ایک روز بعد، اچانک ووٹوں کا شمار 254871 بتایا گیا، جب کہ پولنگ مراکز کی تعداد بڑھ کر 390 ہوگئی۔نیٹ ورک کے مطابق ووٹوں کی گنتی دس گنا زیادہ کیسے ہوگئی؟ یہ بات نیٹ ورک کی ویب سائٹ پر موجود ہے جس میں اس طرح کی متعدد مثالیں دی گئی ہیں۔اس نوعیت کی رائے زنی کے بعد افغانستان کے دو انتخابی اداروں پر دباؤ میں اضافہ ہوگیا ہے، جن کا کام ووٹوں کی گنتی اور شکایات کا ازالہ کرنا ہے، یعنی بالترتیب، انتخابی کمیشن اور الیکٹورل کمپلینٹس کمیشن۔اٹھائیس ستمبر کو ہونے والی ووٹنگ کے نتائج کا اعلان رواں ماہ کے اواخر میں متوقع ہے، جب کہ حتمی نتائج آئندہ ماہ آئیں گے۔ ادھر غنی کے ساتھی امراللہ صالح نے پولنگ کے بعد وائس آف امریکا کی پشتو سروس کو بتایا کہ انھیں 60 فی صد سے زیادہ ووٹ پڑے ہیں۔اْسی ہفتے، عبداللہ نے ایک اخباری کانفرنس میں بتایا کہ انھیں انتخابی عمل میں ’’سب سے زیادہ ووٹ پڑے ہیں اس لیے انتخابات کے دوسرے دور کی ضرورت باقی نہیں رہی‘‘۔حکمت یار اور افغان انٹیلی جنس کے سابق سربراہ، رحمت اللہ نبیل نے بھی جیت کا عندیہ دیا لیکن انھوں نے کامیابی کا اعلان نہیں کیا۔