رہائیاں نہیں پاکستان کو باوقار بنائیں

191
رہائیاں نہیں پاکستان کو باوقار بنائیں

کہانی پاناما سے شروع ہوئی اور سزا ایک بیٹے کی کمپنی میں ملازم ہونے کے باوجود ’’تنخواہ‘‘ نہ لینے کے جرم میں دی گئی اور وہ بھی اس انتہا کی کہ ایک وہ پاکستانی جو تین مرتبہ ملک کی وزارت عظمیٰ پر فائز رہا، وہ وزارت عظمیٰ پر متمکن ہونے کے باوجود بھی نہ صرف نااہل قرار دیدیا گیا بلکہ اس جرم کو اتنا سنگین قرار دیا گیا کہ وہ تا قیامت پاکستان میں ہونے والے کسی بھی قسم کے انتخابات میں ایک امید وار کے طور پر حصہ بھی نہیں لے سکتا تھا۔ ویسے تو یہاں ہر وہ فرد جو پاکستان کے قابل احترام عہدوں، گورنر جنرل، وزرارت عظمیٰ یا صدر تک پہنچا ہو، پاکستان میں عزت و جاہ کا وہ مقام جو کسی بھی ملک کے ایسے عہدیداروں کو ملنا چاہیے، حاصل نہ کر سکا لیکن جو تماشا گزشتہ پانچ چھ برسوں سے پاکستان میں جاری ہے وہ اتنا شرمناک ہے کہ وہ پاکستانی جو پاکستان سے باہر رہتے ہیں، نجانے وہ وہاں کی مقامی آبادی کو کیسے منہ دکھاتے ہوںگے۔ ان سے جب وہاں کے مقامی لوگ کہتے ہوںگے کہ کیا تمہارے ملک کے جتنے بھی سربراہانِ مملکت ہیں، سب کے سب ہی اول درجے کے چور، بدمعاش، ڈاکو اور لٹیرے ہی ہوتے ہیں تو ان کے پاس اس بات کا کوئی جواب بھی ہوتا ہوگا یا نہیں۔ پھر یہ کہ ان ممالک کے مقامی افراد کو یہ بات سمجھانا کتنا دشوار ہوتا ہو کہ جس ملک میں 1947 سے اب تک جتنے حکمران آئے، وہ بہن جو بانی پاکستان کے ساتھ ساتھ سائے کی طرح لگی رہی، وہ سب کے سب پاکستان کے
غدار، چور اور لٹیرے ہیں تو پھر پاکستان کے عوام کیسے شریف اور نیک ہو سکتے ہیں؟۔
قائد کے ساتھ کیا ہوا؟، کس بے قدری کے ساتھ ان کے آخری ایام گزرے۔ قائد کی بہن کے ساتھ اس وقت کی حکومت نے کیا بھیانک سلوک کیا۔ ایسی ہستی کو بھارت کا ایجنٹ قرار دیا گیا۔ لیاقت علی کو بھرے مجمعے میں گولی ماردی گئی۔ اس کے بعد توچل میں آیا والا پروگرام چلتا رہا۔ ایوب خان کو تذلیل کا سامنا کرنا پڑا۔ بھٹو کو پھانسی پر چڑھادیا گیا۔ ضیاالحق کے طیارے کو اڑادیا گیا۔ پھر اس کے بعد قائم ہونے والی ساری جمہوری حکومتوں کو لاتیں مار مار کر اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ ان سب کو ملکی سالمیت کے لیے خطرہ قرار دیا گیا۔ ملک دشمنی کا الزام لگایا گیا۔ پرویز مشرف فوجی حکمران ہونے کے باوجود ’’غداری‘‘ کے مقدمات میں اب تک عدالتوں کو مطلوب ہیں۔ دو مرتبہ کی وزیراعظم بینظیر بھٹو کو خود کش دھماکے کے ذریعے راستے سے ہٹا دیا گیا، گیلانی نااہل قرار دیے گئے، راجا پرویز اشرف پر مقدمات بنے، آصف علی زرداری برس ہا برس جیل میں رہے، پھر صدر اسلامی جمہوریہ
پاکستان بھی بنا دیے گئے اور آج کل پھر وہ جیل کی کال کوٹھڑی میں سڑائے جارہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے جس قوم کے سارے حکمران ہی کرپٹ، ملک دشمن، چور اور ڈاکو ہوں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس ملک کے عوام نمازی، پرہیزگار، حاجی، شریف اور اعلیٰ کردار اور ظرف کے مالک ہوں۔ یہ ہے وہ سوال جو جب جب بھی ان غیر ممالک میں بسنے والے وہاں کے مقامی افراد کرتے ہوںگے تو ان کے پاس سوائے اپنی بغلیں جھانکنے کے اور کیا ہوتا ہوگا۔ میرے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ کسی بھی قسم کی کرپشن کی تحقیق کے لیے ہمارے ملک میں بڑے بڑے اور بے حد طاقتور ادارے موجود ہیں۔ 16 سے کہیں زیادہ ایجنسیاں ایسی ہیں جو ہر قسم کی انوسٹی گیشن کرتی ہیں جن میں فوجی ایجنسیاں بھی شامل ہیں۔ ان کو یہ اختیار بھی ہے کہ وہ غیرملکی ایجنسیوں اور متعلقہ اداروں کی مدد بھی حاصل کرسکتی ہیں۔ اگر یہ ساری ایجنسیاں مل کر بھی کئی کئی برس کسی کے خلاف کوئی خاطر خواہ ثبوت فراہم کرنے میں ناکام ہوں تو پھر عدالتی نظام کا نہیں، اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لینا ہوگا جن پر عوام کے ٹیکسوں کے کھربوں روپے سالانہ خرچ ہوتے ہیں یا پھر اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ جن جن کو بھی پاکستان میں اٹھا لیا جاتا ہے، ان پر الزامات کی بارش ہوتی ہے، چور، ڈاکو، اور لٹیرا کہا جاتا ہے، بھتا خور اور ٹاگٹ کلر قرار دیا جاتا ہے، وہ سب کے سب کسی سیاسی یا سماجی انتقام کا شاخسانے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
جس ملک میں لیاقت علی خان اور بینظیر کے قاتلوں کا سراغ نہ مل سکے۔ جہاں ماڈل ٹاؤن لاہور کے قاتل نہ پکڑے جاسکتے ہوں۔ جہاں ملک کے وزیر اعظم کا بیٹا مرتضیٰ بھٹو پولیس کے ہجوم کے ہاتھوں قتل ہوجائے اور آج تک قتل کیے جانے کی وجہ نہ معلوم ہو سکے، جہاں سلمان تاثیر قتل کر دیا جائے، جہاں یوسف رضا گیلانی کا بیٹا سر بازار اغوا کر لیا جائے، جہاں وہی آسیہ ملعونہ رہا کردی جائے جس کی حمایت کے جرم میں سلمان تاثیر کو قتل کیا گیا۔ جس ملک میں بلدیہ کی ایک فیکٹری میں آگ لگاکر 300 مرد و خواتین کو جلادیا جائے اور ایسے بھیانک جرم کرنے والے قانون کے دسترس سے دور ہوں۔ جس ملک میں ایک ایس پی 400 سے زائد افراد کو ماورائے عدالت قتل کردے اور اس پر کوئی مقدمہ نہ بنے۔ جس ملک میں 111 افراد کا ٹارگٹ کلر پکڑا تو جائے مگر اسے کسی بھی عدالت میں پیش کرکے اس کی بوٹیوں کو چیل کوؤں کو نہ کھلایا جا سکے۔ جس میں سانحہ ساہیوال کے قاتل رہا کردیے جائیں اور جہاں بے گناہوں کو پھانسی دینے کے بعد معلوم ہو کہ اصل قاتل کوئی اور تھا، وہاں یہ امیدیں وابستہ کرنا کہ عدالتیں انصاف فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ایسا ہی ہے جیسے کسی نادان بچے کے ہاتھ میں تیز دھار والا خنجر پکڑا کر یہ خیال کرلیا جائے کہ نہ تو بچہ اپنے آپ کو کوئی نقصان پہنچائے گا اور نہ ہی اس کے ہاتھوں کوئی اپنے انجام بد کا شکار ہوگا۔
تمام اربابِ اختیار کو یہ بات بہت اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جس انداز میں پاکستان کو چلانے کی کوشش کی جارہی ہے وہ بہت ہی خطرناک ہے۔ ہم اس کی سزا 1971 میں بہت اچھی طرح بھگت چکے ہیں مگر افسوس یہ ہے کہ ہم اپنی غلط حکمت عملی اور غلط پالیسیوں پر نظر دوڑا نے کے لیے آج بھی تیار نہیں۔ ہم پورے پاکستان کو مسلسل ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے میں لگے ہوئے ہیں۔ جبر اور زبردستی کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں اور پوری کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ صرف جھوٹی اطلاعات، الزام تراشیوں اور غلیظ قسم کے پروپیگنڈے سے کام نکال کر قوم کو بیوقوف بنا کر اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرتے رہیں۔ کیا پاکستان اپنی ان بے سروپا حکمت عملیوں سے پاکستان اور پاکستانیوں کو دنیا میں ایک پْر وقار قوم بنانے میں کامیاب ہو جائے گا؟۔ یہ ہے وہ سوال جو پاکستان سے ساری دنیا کے عوام اور ممالک کرتے ہیں اور یہی وہ سوال ہے جو پاکستان کو اپنے حکمرانوں سے کرنا چاہیے۔ جب تک پاکستان کے صاحب اقتدار و اختیار ان سوالوں کا جواب حقیقت پر مبنی نہیں دیں گے اس وقت تک پاکستان کبھی دنیا اور دنیا والوں کی نظروں میں ایک باوقار ملک نہیں بن سکے گا۔