ہاتھی کے دانت

175

عمران احمد نیازی نے اپنی الیکشن مہم سے بہت پہلے نواز حکومت کو نشانے پر رکھا اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کے بعض اقدامات پر اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کیا تھا جن میں موٹروے سر فہرست رہی کہ موٹر وے بنانے سے قومیں ترقی نہیں کرتیں مگر یہ الگ بات ہے کہ حال ہی میں انہوں نے اسی موٹر وے کا ہزارہ میں افتتاح کردیا جو نواز حکومت کے منصوبوں میں شامل تھا یوں اپنی ہی بات کی خود نفی کردی۔ 126 دن کے دھرنے نما کنسرٹ شو میں انہوں نے بڑے بلند بانگ دعوے کیے کہ میری حکومت آئی تو گورنر ہائوسز اور صدارتی محل کو نہ صرف عوام کے لیے کھول دینگے بلکہ وہاں اعلیٰ تعلیمی ادارے بھی قائم کیے جائیں گے کہ ایک شخص کے لیے اتنے بڑے بڑے محل بنانے کی کیا ضرورت ہے یہ قوم کے پیسے سے بنائے گئے ہیں، جب ان کی حکومت آئیگی تو ہرا پاسپورٹ ہر طرف ہریالی بکھیر دے گا بلکہ عوام کو نوکریاں کرنے کے لیے باہر کے ملکوں میں جانا ہی نہیں پڑے گا۔ ہر ے پاسپورٹ کی دنیا بھر میں عزت ہوگی لوگ باہر سے پاکستان میں نوکریاں کرنے آئیں گے۔ ان کے کم و بیش 20 بڑے بڑے دعوں میں سر فہرست ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ مکان بنا کر غریبوں کو دیں گے یہ اور بات ہے کہ غریب کی تعریف ان کی نظر میں کیا ہے کہ ایک ایسا شخص جو کاروبار کرتا ہو اور کروڑ پتی ہو لیکن اس کے پاس گھر نہ ہو اس غریب کے لیے وہ مکان بنائیں گے کیونکہ فی زمانہ ملک کے کسی بھی دور دراز کے علاقے میں 5 مرلے کا مکان بھی بیس لاکھ سے کم میں دستیاب نہیں ہوگا جس کے پاس مکان خریدنے کے لیے بیس لاکھ ہوںگے وہ غریب نہیں ہوگا ان گھروں کا معیار کیا ہوگا اگر C کیٹیگری کی تعمیرات بھی کی جائیں تو 5 مرلے کا مکان دس سے پندرہ لاکھ میں بنے گا اگر اتنی رقوم کا قرض کسی غریب کو ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کے ذریعے دیا گیا تو وہ قرض نہیں بلکہ اس کی نسل ہی کو گروی رکھنے کے مترادف ہوگا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک کروڑ نوکریوں کا بھی وعدہ کیا تھا جبکہ پورے ملک میں سرکاری ملازمین کی موجودہ تعداد کم و بیش 10 لاکھ سے زیادہ نہیں، پھر ان محکموں میں مزید چالیس لاکھ اسامیوں کو کس طرح نکالا جائے گا۔ پھر ان کی تنخواہوں کا کس طرح انتظام ہوگا اگر اوسطاً 25 ہزار فی کس تنخواہ نکالی جائے تو یہ کم و بیش 125 ارب کا زر خطیر کا بوجھ ہلتا جلتا اور آئی ایم ایف کا بنایا ہوا بجٹ اپنے اندر کیسے جگہ بنا سکے۔ پس ثابت ہوا کہ عمران نیازی نے ہوم ورک کیے بغیر ہی عوام کے سامنے بلند بانگ دعوں کے ساتھ وعدے کر ڈالے جن کو ان وعدوں کی باریکی کا قطعی کوئی احساس نہیں تھا حیرت کی بات یہ ہے بقول نیازی صاحب کے ان کے پاس اسد عمر جیسے ماہر معاشیات موجود ہیں جن کو انہوں نے حکومت ملنے سے پہلے ہی اپنا وزیر خزانہ مقرر کردیا تھا۔ مگر حسرت ان غنچوں پر… کے مصداق چند ہفتوں میں ہی فارغ کردیے گئے اس کے بعد ایک کرائے کا مشیر مالیات پکڑ لائے جس نے ملک کی معیشت کو تہہ و بالا کردیا مہنگائی کا طوفان بلا خیز قوم کے سر منڈھ دیا گیس، بجلی، اشیائے خور ونوش، تعمیراتی سامان ہر شے کو مہنگائی کے میزائل پر رکھ کر آسمان تک پہنچا دیا گیا۔ کیسی انہونی ہوئی کہ جس طبقے کو عمران نیازی سے سب سے زیادہ توقعات تھیں اور جو سب سے زیادہ خوش تھے وہ کرکٹ کے کھلاڑی تھے کہ جوں ہی عمران جیت کر آئیں گے ان کے تمام دلدر دور ہوجائیںگے۔ مشاہدے میں اضافہ ہوگا کرکٹ کے نئے باب کھولے جائیںگے کرکٹ کے میدان سجائے جائیںگے بڑے بڑے ملکی سطح پر ٹورنامنٹ ہوں گے فرسٹ کلاس کرکٹ جس کا سال ہا سال سے گلا گھونٹا ہوا ہے وہ بحال ہو گی اداروں میں کرکٹ کو مزید مضبوط و مستحکم کیا جائے گا، لیکن کرکٹ کے کھلاڑیوں کے ساتھ کرکٹ کے شیدائیوں اور عوام تو انگشت بدنداں رہ گئے جب یک جنبش قلم عمران خان نیازی نے پاکستان کے تمام سرکاری نیم سرکاری اداروں سے کرکٹ کا پتا ہی کاٹ دیا اور ڈومسٹک کرکٹ پر بھی تلوار لٹکا دی۔
عمران احمد نیازی ان سیاست دانوں میں شمار ہوتے ہیں جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں جو نہیں کہتے وہی کرتے ہیں پہلے بھی اس قوم کے ساتھ یہی کچھ ہوتا رہا ہے مگر خفت و خجالت کے اظہار کے ساتھ مگر جس ڈھٹائی سے عمران نیازی نے اپنی کہہ مکرنیوں کی نئی مثال قائم کی ہے اس کی نظیر ماضی قریب و بعید میں ملنا مشکل ہے۔ یہ بات اب طشت از بام ہو چکی ہے کہ عمران نیازی جو کہیں گے وہ نہیں کریں گے مگر جن باتوں کا ان کی انتخابی مہم اور قبل از مہم کی تقاریر میں دور دور تک ذکر نہیں تھا وہ کام انہوں نے اتنی سرعت کے ساتھ کیے کہ مخالفین تو کجا خود ان کی
پارٹی کے رہنما اور کارکن بھی حیرت کی گھاٹیوں میں سرگرداں نظر آئے، آسیہ ملعونہ کا کہیں کوئی ذکر نہیں تھا مگر سب سے پہلے اسی کو چھوڑنے کا بیڑا انہوں نے اٹھا لیا۔ اس سزا یافتہ مجرمہ کو جس کے اقبالی بیانات آج تک عدالتی رکارڈ پر موجود ہیں اس نے نہ صرف اقبالی بیانات دیے بلکہ اس پر قائم بھی رہی مگر نیازی صاحب نے اس فعل قبیح کو اس طرح سر انجام دیا گویا ان کا سب سے بڑا اور پہلا انتخابی وعدہ آسیہ ملعونہ کو چھوڑنے کا تھا جس کو انہوں نے ثاقب نثار کے ساتھ مل کر رہا کرادیا اور نہ صرف رہا کرادیا بلکہ ملک سے ’’بحفاظت‘‘ کفار کے حوالے بھی کردیا۔ ثاقب نثار سے جب یہ سوال کیا گیا کہ آپ نے کس قانون کے تحت اس کو رہا کیا تو شرمندہ ہونے کے بجائے ببانگ دہل کہا بس چھوڑ دیا۔ اس کے بعد سکھوں اور قادیانیوں کے لیے کرتار پور راہداری کی باری آتی ہے کہ اس پر اس تیزی کے ساتھ کام ہوا جتنی تو جنگ چھڑجانے کے بعد بھی دفاعی امور نہیں نمٹائے جا سکتے تھے صرف اور صرف گیارہ ماہ میں سکھوں کے گردوارے کی تعمیر اس کے احاطے کی تزئین و آرائش سکھ یاتریوں کے لیے آمد و رفت کی تمام تر سہولتیں اس طرح فراہم کی گئیں جیسے سکھوں نے پاکستان کی آزادی کے لیے کلیدی کردار ادا کیا تھا جو ستر سال میں گزشتہ حکومتوں نے ان کا یہ احسان نہیں چکایا تھا اب نیازی صاحب سکھوں کا وہ احسان چکانے میدان میں اتر آئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہجرت کے وقت مشرقی پاکستان میں مہاجرین کی ٹرینوں کی ٹرینیں کاٹ کر کشتوں کے پشتے لگانے والے یہی سکھ تھے۔ سکھوں کے مشرقی پنجاب میں مسلمانوں پر بد ترین ظلم و ستم کی داستانیں تاریخ کے اوراق پر محفوظ ہیں لیکن عمران نیازی نے ان سکھوں کے لیے وہ مراعات فراہم کی جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ بغیر پاسپورٹ کے انٹری ایک دن میں پانچ ہزار سکھوں کے داخلے کی اجازت اور اس کے انتظامات۔ دنیا میں ایسے ممالک ہوتے ہیں جو دیگر ممالک کے باشندوں کو بغیر ویزے کے اپنے ملک میں داخلے کی اجازت دیتے ہیں مگر یہ اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ ہر دو ممالک کے آپس کے کیا تعلقات ہیں لیکن یہاں تو گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے کہ پاکستان کے دشمن نمبر ایک ملک بھارت جس نے آج تک دل سے پاکستان کو تسلیم ہی نہیں کیا اور بلوچستان سے لے کر
کراچی اور لاہور سے لے کر بلتستان تک سازشوں کا جال بچھا رکھا ہے کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان کو مزید ٹکڑوں میں تقسیم کردے جبکہ مودی خود حسینہ واجد کے ساتھ کھڑے ہو کر فخریہ انداز میں مشرقی پاکستان کو بنگلا دیش بنانے کی کھلم کھلا ذمے داری بھی قبول کرتا ہے یہی نہیں دنیا کا کوئی فورم ایسا نہیں جہاں بھارت نے پاکستان کے خلاف منصوبہ بندی کے ساتھ مخالفت نہ کی ہو اس ملک کے باشندوں کو صرف سکھ کہہ کر اس طرح ملک میں دندنانے کی اجازت دینا کہاں کی حب الوطنی ہے؟ اس کے ساتھ ہی نیازی صاحب نے سیکورٹی کونسل کی مستقل رکنیت کے لیے بھارت کو ووٹ دے کر 22 کروڑ پاکستانیوں کے سر شرم سے جھکا دیے۔
نیازی نے اپنی تقریر میں کبھی نہیں کہا کہ مہنگائی کا سونامی لائوںگا مسند اقتدار پر بیٹھتے ہیں مہنگائی اتنی بڑھا دی کہ لوگ خود کشیاں کرنے لگے۔ نیازی نے کبھی نہیں کہا تھا کہ وہ قادیانیوں کو مراعات دیں گے مگر حلف اٹھانے کے ساتھ ہی ایک قادیانی کو مشیر مالیات مقرر کردیا وہ تو بھلا ہو قوم کا جس نے بروقت شور شرابا کر کے نیازی کو اپنے فیصلے کو واپس لینے پر مجبور کردیا لیکن بات اتنی بھی سادہ نہیں وہی قادیانی اب بھی باہر بیٹھ کر نیازی صاحب کو پالیسیاں بنا کر دے رہا ہے اور غیر اعلانیہ اب بھی وہی ان کا مشیر ہے جس نے نیازی صاحب کو آئی ایم ایف کے پائوں پکڑ کر قرضے کی بھیک مانگنے پر مجبور کیا، جس نے چند ٹکوں کے عوض پوری قو م کو گروی رکھ دیا اور آئے روز ان چند ٹکوں کا احسان جتا کر ایسے مطالبات کر رہا ہے جس کو پورا کرنے کے لیے نیازی صاحب پوری طرح مستعد نظر آتے ہیں۔
نیازی صاحب نے یہ کب کہا تھا کہ وہ لنگر خانے کھولیں گے اور قوم کے قابل محنت لوگوں کو بھی بھکاریوں کی طرح ذلیل کر کے کھانا کھلائیں گے۔ کیا نیازی صاحب نے یہ کہا تھا کہ میاں صاحب کے چھوڑے ہوئے نا مکمل موٹر ویز کا میں افتتاح کروں گا وہ تو موٹر ویز کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ کیا نیازی صاحب نے یہ کہا تھا کہ وہ کشمیر پالیسی پر بد ترین U ٹرن لے لیں گے۔ عمران نیازی صاحب کا بھارت کے الیکشن کے دوران اس بات کا عندیہ کہ اگر مودی جیت گیا تو مسئلہ کشمیر حل ہو جائے گا بہت سے شکوک پیدا کرتا ہے کہ شاید ان کو پہلے سے پتا ہو کہ مودی 2 تہائی اکثرت سے جیتنے کے بعد بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35اے واپس لے لے گا اور ان کی نظر میں بس یہی مسئلہ کشمیر کا حل ہوگا۔
باقی صفحہ7نمبر1
مظفر ربانی
اس پر نیازی صاحب کو وضاحت کرنی چاہیے کہ انہوں نے کس بنیاد پر مودی کے جیتے کی تمنا کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ حکومت ملتے ہی لاہور میں رنجیت سنگھ کا مجسمہ لگائوں گا 700 گوردواروں پر قرض میں پھنسی ہوئی قوم کے اربوں روپے لگا دوں گا آخر ان کاموں کے لیے کون فوری طور پر منظوری دے دیتا جبکہ حالت یہ ہے کہ پشاور تا کراچی گندے پانی کی نالیوں کو ٹھیک کرنے کے لیے 22 کروڑ عوام بلدیاتی اداروں کے چکر کاٹتے رہتے ہیں جواب یہی دیا جاتا ہے کہ بجٹ نہیں ہے پھر کرتارپور اور 700 گوردواروں کی تعمیر نو پر اربوں روپوں کی خطیر رقوم کہاں سے دستیاب ہوجاتی ہیں۔ افسوس صد افسوس اسلام کے نام پر حاصل ہونے والے ملک میں مدرسوں اور مساجد کے اخراجات اٹھانے کے لیے ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے لیکن مشرکین کفار کی عبادت گاہوں کے لیے اربوں روپے کے بجٹ جاری کیے جا رہے ہیں اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج نیازی صاحب نے مسئلہ کشمیر پر ایسے چپ سادھ لی ہے جیسے یہ کوئی مسئلہ رہا ہی نہیں تھا اور اب اپنی گھنٹوں کی تقاریر میں کشمیر کا ذکر خیر کرنا بھی گوارا نہیں کرتے کیا ایسا ہی وعدہ انتخابی مہم کے دوران کیا گیا تھا۔ اقتصادیات کی حالت یہ ہے کہ ملک کے زر مبادلہ کے ذخائر مسلسل کم ہو رہے ہیں اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ خطرناک حد تک کم ہو چکا ہے اب جو اعداد و شمار جاری کیے جا رہے ہیں اس کی حقیقت سے قوم آگاہ ہے کہ حزب مخالف کے تند و تیز تبصروں اور تنقیدوں کو کم کرنے کے سوا کچھ نہیں گورنر اسٹیٹ بینک اور دیگر اکائیوں کے مجاز افسران پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ مہنگائی اور بڑھے گی۔ روپے کی قدر میں مزید کمی ہو سکتی ہے۔ بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔ درامد شدہ مشیر خزانہ نوید سنا رہے ہیں کہ نوکریاں فراہم کرنے کے لیے حکومت کے پاس پیسہ نہیں ہے لیکن کرتارپور اور 700 گوردواروں کے لیے خزانے کے منہ کھلے ہوئے ہیں۔ نیازی حکومت کے ڈیڑھ سال کی کارکردگی اور مالیاتی پالیسیاں دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ پالیسیاں پاکستان میں کوئی محب وطن ماہر معاشیات بنا رہا ہے حقیقت یہ ہے کہ ہر روز ماہرین معاشیات میڈیا پر بیٹھ کر اپنا سر پیٹ رہے ہیں کہ یہ کیا ہورہا ہے پاکستان دیوالیے کے قریب پہنچ رہا ہے اور میرو چین کی بانسری بجا رہا ہے۔