سال کا اہم ترین ادبی میلہ

163

آرٹس کونسل کراچی نے اُس میلے کی تاریخوں کا اعلان کردیا جس کا انتظار اردو ادب کے چاہنے والے مہینوں پہلے سے شروع کردیتے ہیں۔ پہلی مرتبہ تین ماہ قبل ستمبر ہی میں اس کے بارے میں بتادیا تھا۔ لہٰذا یہ کوئی نئی خبر نہیں تھی۔ کراچی کا یہ ادبی میلہ ایک ایسی مثبت سرگرمی ہے جو لوگوں میں مکالمے کو تحریک دیتا ہے۔ خیالات اور تصورات کے تبادلے کی صورت میں ایک دوسرے کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے یوں ہم آہنگی فراہم کرنے کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے۔ اگرچہ پڑھنے کا شوق اور عادت کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود کراچی میں ہونے والے کتابوں کے میلے میں ہزاروں لوگ شریک ہوتے ہیں اور کتابوں کو شیرینی کی طرح خریدا جاتا ہے۔ یقینا آرٹس کونسل اپنی روایت کو قائم رکھے گا اور گزشتہ برسوں کی طرح بھرپور طریقے سے عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد کیا جائے گا۔
ملک کے طول و عرض کے علاوہ دنیا کے مختلف کناروں سے ادب کی چاہ میں ادیب شاعر ہی نہیں ادب کا ہر شیدائی شرکت کرے گا۔ اس میں ادب کے چاہنے والوں کے لیے حقیقت میں بہت کچھ ہوتا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مزید بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ ایک خاتون قلم کار ہونے کی حیثیت سے سب سے پہلے ہم خواتین کی بات کریں گے۔ اردو ادب میں نسائی شعور کی بات اہم ہے، شاعری سے لے کر فکشن تک یہ اپنی جگہ اہم ہے لیکن بہرحال یہ بات دوسری ہے کہ ادب کو زنانہ اور مردانہ حصوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی کرنا چاہیے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ عورت اور مرد معاشرے کو دو مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں۔ ان کے اوپر لکھتے ہوئے ان کی نظر حالات اور واقعات کو اپنی اپنی حیثیتوں میں دیکھ رہی ہوتی ہے۔ لہٰذا اُن پر بات بھی مختلف حیثیتوں میں ہونی چاہیے۔ آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ کو ہم نے کئی مہینوں پہلے باقاعدہ کچھ عنوانات اور سوالات اس کے لیے تجویز کرکے دیے تھے۔ جس کو انہوں نے اپنی پٹاری میں محفوظ بھی شکریہ کا ساتھ کرلیا تھا۔ آج ہم اپنے کالم میں انہیں سب کے سامنے رکھتے ہیں یہ سوالات کچھ یوں تھے کہ اردو کانفرنس میں خواتین قلم کاروں کے ساتھ ہونے والے پروگراموں کے نکات:
٭ کیا خواتین میں ادب پڑھنے کا رجحان تبدیل ہوا ہے؟
٭ ادب و ثقافت اور معاشرے کی بدلتی اقدار پر خواتین قلم کاروں کے اثرات۔
٭ خواتین کی تحریروں میں جدید اور کلاسیک۔
٭ ان کی تحریر پر معاشرت معاشرے کے اثرات
یہ بات تو واضح ہے کہ تحریروں پر معاشرت کے اثرات یقینا پڑتے ہیں۔ دنیا کے حالات کے بھی اثرات پڑتے ہیں۔ جنگوں کے دوران لکھے گئے ناول اور افسانے اور امن میں لکھے گئے ادب میں فرق ہوتا ہے۔ جنگ میں اور طرح لکھا جاتا ہے اور امن میں اور طرح لکھا جاتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد آنے والی نظریاتی تبدیلیوں نے اردو فکشن کو متاثر کیا اور اس کے معاشرت پر اثرات ہوئے۔ ہمارے ہاں ستر کے المیے پر کیا کوئی اہم ناول لکھا گیا؟ اور اس کے بعد معاشرت پر اس کے اثرات کے بارے میں بات کی گئی؟ مکالمہ تک ہونے نہیں دیا گیا۔ اچھی کتابیں لکھی گئیں لیکن انہیں وقت کی دھول میں بھلا دیا گیا۔ ڈھاکا یونیورسٹی اور راج شاہی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سید سجاد حسین نے The Westes of Time کے نام سے اس موضوع پر انگریزی میں کتاب لکھی جس کا ترجمہ شکست آرزو کے نام سے کیا گیا۔ پاکستان کی محبت میں گرفتار یہ ایک حقیقی عاشق زار کے احساسات، جذبات اور تجربات ہیں جن سے ہر پاکستانی خصوصاً نوجوانوں کو واقف ہونا چاہیے، ایسے ادبی میلوں میں ان پر بات کرنا چاہیے، جب کینیڈا، امریکا اور یورپ کے لکھنے والوں کا تفصیلی تعارف کیا جاتا ہے اور انہیں مدعو کیا جاتا ہے تو کیوں نہیں وطن کے ایسے عاشق زار جنہوں نے وطن کی محبت میں سزائیں بھگتیں جن کے بعد وہ رہا ہوئے اور باہر کی یونیورسٹیوں میں ہاتھوں ہاتھ لیے گئے انہیں متعارف کرانے میں کیا مضائقہ ہے؟۔ پھر بچوں کا ادب جس قدر اہمیت کا متقاضی ہے اس پر وہ توجہ نہیں دی جاتی عموماً بھرتی کا ایک سیشن رکھا جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں بچوں کے اخبارات اور رسائل کی تعداد دو سو سے زیادہ ہے اس میں سے تقریباً نصف اردو میں نکلتے ہیں۔ ظاہر ہے اُسی مناسبت سے بچوں کے لیے لکھنے والے موجود ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ادب کے نجی اور سرکاری ادارے انہیں اہمیت دینے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ کسی ادارے نے بچوں کے ادب اور ادیب کو وہ اہمیت نہیں دی جیسی دینی چاہیے، یہاں تک کہ اکادمی آف ادبیات پاکستان نے بچوں کے ادیبوں کے لیے اعزاز دینے ہی سے انکار کردیا۔ یعنی انہوں نے اس سلسلے میں کوئی کیٹیگری ہی متعارف نہیں کرائی۔ بچوں کے سیشن میں جن مہمانوں کو بلایا جاتا ہے وہ یا تو اپنے کاموں کا ذکر کرتے یا اُن کو ملنے والی رائلٹی پر بات کی جاتی ہے۔ جو سوال اہم ہے وہ یہ ہے کہ کیا بچوں کے ادیبوں کی پزیرائی کی جارہی ہے؟ کیا اُس کے فروغ پر بات کی جارہی ہے؟ معاملہ صرف اہمیت دینے کا دیکھا جائے تو اشتیاق احمد کی اچانک موت جس وقت ہوئی تھی اُس وقت آرٹس کونسل میں یہ ادبی کانفرنس ہورہی تھی لیکن نہ ان کا نام لیا گیا، نہ ان کے بارے میں کوئی سیشن رکھا گیا اور اب تک اس طرف توجہ نہیں دی گئی۔ حالاں کہ یہ بات ممکن نہیں کہ بچوں کے ادب پر بات ہو اور جناب اشتیاق احمد پر بات نہ کی جائے۔ انہوں نے بچوں کو کہانیوں کی طرف متوجہ کرنے میں جو کامیابی حاصل کی وہ اور کسی مصنف کے حصے میں نہیں آئی۔ آج پھر سال کا اہم ترین ادبی میلہ شروع ہونے کو ہے اور ادب کے شیدائی منتظر ہیں ہم جیسے طفل مکتب ان میلوں کے انعقاد کرنے والوں سے یہ چاہتے ہیں کہ ہر سال اس میں افراد اور پروگرام میں کچھ تنوع لازمی ہونا چاہیے، ایک ہی طرح کے لوگ اور پروگرام اس کی دلچسپی کو محدود کردیتے ہیں اور جہاں تک ہم جیسے لوگوں کا معاملہ ہے تو وہ تو ادب اور ادیب سے محبت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
مئے خانہ سلامت ہے تو ہم سرخی مۂ سے
تزئین درو بامِ حرم کرتے رہیں گے