معصوم ترین راؤ انواروں کا ملکِ پاکستان

185

 یہ کوئی معمولی خبر نہیں اور نہ ہی پاکستان کے لیے کوئی خوش خبری لیے ہوئے ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان کے جتنے ایسے ادارے جن کا کام قانون کا ’’قانونی‘‘ نفاذ ہے وہ اب اتنے بے باک ہوگئے ہیں کہ خود ہے وکیل، خود ہی عدالت اور خود ہی جلاد بن چکے ہیں اور اگر کوئی جرات کا مظاہرہ کرکے ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرکے ان کے گریبان کو عدالت تک کھینچ کر لے جائے تو ان اداروں کے ایک ایک سفاک قاتل کا تحفظ کیا جاتا ہے اور ان کا عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر اپنی صفائی پیش کرنے کو پورے ادارے کی توہین اور تذیل شمار کرتے ہوئے کوئی نہ کوئی ’’طاقت‘‘ کا ایسا راستہ نکالا جاتا ہے کہ مجرم عدالت میں پیش ہی نہ ہو سکے۔ پرویز مشرف اور راؤ انوار اسی قبیلہ سے تعلق رکھنے والے ایسے مجرم ہیں جن پر مقدمات تو قائم ہیں لیکن پاکستان میں کسی میں اتنی جرات نہیں جو ان کو ہتھکڑیاں پہنا کر عدالت میں حاضر کر سکے۔
پاکستان میں قانون اپنی قوت دن بدن کھوتا جارہا ہے اور اس پر وہ قوتیں غالب آتی جارہی ہیں جن کا کام ہی قانون پر عمل در آمد کرانا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ راؤ انوار جیسے افراد اتنے مضبوط اور طاقتور بن چکے ہیں جو عدالت کی نظر میں ایک ملزم ہوتے ہوئے بھی اتنے کروفر کے ساتھ عدالت میں پیش ہوتے ہیں جیسے وہ قانون کو اپنی لونڈی باندی سمجھتے ہوں۔اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایک ایسا شخص جس کے ہاتھوں 400 سے زائد افراد بغیر عدالت میں پیش کیے مارے جا چکے ہوں اور جب اسے عدالت میں پیش ہونے کو کہا جائے تو وہی ادارہ جس کا کام مجرم کو گرفتار کرکے، اسے پابہ زنجیر کرکے، اس کے خلاف چالان کاٹ کر عدالت میں ایک ملزم یا مجرم کی حیثیت میں پیش کرے، اس ادارے کے درجنوں اہل کار اسے اپنے جلو میں اس طرح لے کر آ رہے ہوتے ہیں جیسے وہ بادشاہ ہو اور ادارے کے حاضر ڈیوٹی اہلکار اس کے غلام۔ یہی نہیں، 400 سے زائد افراد کا قاتل اس طرح گردن اکڑا کر چل رہا ہو جیسے اس نے 400 انسانوں کو نہیں کاکروچوں کو مارا ہو۔
خبر ہے کہ ’’امریکا نے جعلی مقابلوں کے لیے بدنام سابق پاکستانی پولیس افسرراؤ انوار سمیت 18افراد پر پابندیاں عائد کر دیں۔ امریکی محکمہ خزانہ سے جاری بیان کے مطابق راؤ انوار، ایس ایس پی ملیر، کے طور پر متعدد جعلی پولیس انکاؤنٹرز کا ذمے دار ہے جن میں کئی افراد ہلاک ہوئے۔ بیان میں کہا گیا کہ راؤ انوار 190 سے زائد پولیس مقابلوں میں ملوث رہا جن میں 400 سے زائد اموات ہوئیں، جن میں نقیب اللہ محسود کا قتل بھی شامل ہے۔ امریکی محکمہ خزانہ کے مطابق راؤ انوار نے پولیس اور مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے ٹھگوں کے نیٹ ورک کی مدد کی جو مبینہ طور پر بھتا خوری، زمینوں پر قبضے، منشیات کی فروخت اور قتل کی وارداتوں میں ملوث تھے‘‘۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ بیان میں کہا گیا کہ ’’راؤ انوار پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہونے پر پابندیاں عائد کی جارہی ہیں‘‘۔راؤ انوار کی ہر کارروائی شک و شبہ کی نظر سے دیکھی جاتی تھی لیکن نقیب اللہ کے شہید کیے جانے کے بعد اس کے خلاف شدید رد عمل سامنے آیا جس کی وجہ سے حکومت وقت اس بات پر مجبور ہوئی کہ اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ نقیب اللہ کے والد سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ اس کو انصاف ملے گا لیکن معلوم ہوا کہ راؤ انوار تو بہت ہی معصوم اور شریف بچہ ہے اس لیے اسے ضمانت بھی مل گئی اور ملک سے باہر جانے والے سارے راستے بھی کھول دیے گئے۔امریکا کے محکمہ خزانہ کے بیان اور راؤ انوار کو مجرم قرار دینے کے بعد کیا اس میں پاکستان کے لیے کسی بھی قسم کی کوئی سبکی نہیں؟۔ ایک ایسا پولیس آفیسر جس نے 190 وارداتوں میں 400 سے زائد افراد کو قتل کروایا ہو، کیا اس پر کسی بھی قسم کا مقدمہ نہیں بنتا؟۔ کیا ان معاملات کی کوئی عدالتی تحقیق نہیں ہونی چاہیے؟، کیا معاملات کی حقانیت کو سامنے نہیں آنا چاہیے اور کیا پاکستان کا ہر وہ ادارہ جس کا کام ہی حقائق کو تلاش کرکے کسی مجرم کو اس کی سزا تک پہنچانا ہوتا ہے، اس کا فرض نہیں بنتا کہ وہ ایک ایسے مجرم کو جو عدالت کو مطلوب ہو اس کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرے؟۔ یہ ہیں وہ سارے سوالات جس کا جواب جب تک نہیں ملے گا اس وقت تک دنیا پاکستان کے کسی بھی ادارے پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ہو سکتی۔
تھوڑی دیر کے لیے یہ مان بھی لیا جائے کہ مارے جانے والے سب کے سب نہایت سنگین جرائم میں ملوث رہے ہوںگے۔ یہ سب قاتل، چور، ڈاکو، لٹیرے، دہشت گرد اور ملک کے غدار ہی رہے ہوںگے لیکن کیا کوئی بھی قانون ایسے لوگوں کو عدالت میں پیش کیے بغیر اور جرم ثابت کیے بنا ماردینے کی اجازت دیتا ہے؟۔کیا کسی کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی پولیس آفیسر سے یہ پوچھے کہ اس کے ہاتھوں مارے جانے والے افراد کس لیے مار دیے گئے؟۔پاکستان میں افراد کو اٹھا کر لیجانا اور ماردیا جانا ایک کھیل بن کر گیا ہے۔ یہ آج سے نہیں ہورہا، گزشتہ تیس پینتیس سال سے ایسا ہی ہورہا ہے۔ اس طرح ماردیے جانے والوں کی تعداد سیکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہے لیکن آج تک کبھی اس نہایت سنگین جرم کو جرم سمجھا ہی نہیں گیا۔
کہا جاتا ہے کہ 30 ہزار سے زیادہ افراد تو صرف کراچی ہی میں مارے جاچکے ہیں۔ یہ مان بھی لیا جائے کہ ایسا سیاسی کشیدگی کا نتیجہ رہا تھا لیکن کیا صرف ایسا کہہ دینے سے قتل جیسے جرم کی سنگینی ختم ہو جاتی ہے؟۔ بے شمار افراد قانون نافذ کرنے والوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے لیکن کیوں؟، اور بیشمار افراد سیاسی دشمنی میں کام آئے۔ جن افراد نے سیاسی یا لسانی دشمنی میں ایک دوسرے کو ہلاک کیا، کیا وہ کسی بھی سزا کے مستحق نہیں؟۔ کہاں ہیں ہزاروں افراد کے قاتل؟۔ کیا اس کا جواب قانون نافذ کرنے والے اداروں سے طلب نہیں کیا جانا چاہیے؟۔یہی وہ سب باتیں ہیں جو اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ پاکستان میں دو قسم کے قاتل پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو نظر آرہے ہوتے ہیں اور ایک وہ جو دکھائی نہیں دے رہے ہوتے۔ جب نظر آنے والے قاتل پکڑے جاتے ہیں تو وہ اصل قاتل جو دکھائی نہیں دے رہے ہوتے انھیں اپنے آپ کو پوشیدہ رکھنے کے لیے یا تو دکھائی دینے والے قاتلوں کو صاف کرنا پڑ جاتا ہے یا پھر انھیں ملک سے باہر ’’سیف ہاؤسز‘‘ میں بھجوا دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواہ کسی پر 111 قتل کا الزام ہو یا 96 قتل کا، وہ عدالتوں میں کبھی پیش نہیں کیے جاتے۔ جب تک سفاکیت کا یہ سلسلہ جاری رہے گا، ایک راؤ انوار نہیں سیکڑوں راؤ انوار اسی طرح اندرون ملک اور بیرون ملک دندناتے پھر تے رہیں گے۔ اگر پاکستان کو باوقار بنانا ہے تو پھر ہر قسم کی لا قانونیت کو دفن کرنا ہوگا ورنہ (خدانخواستہ) پورا پاکستان لاقانونیت کے ملبے تلے دب کر رہ جائے گا۔