امریکی جارحیت اور پاکستان کا رویہ

304

عالمی جنگ چھڑ سکتی ہے یا نہیں، اس کے متعلق کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے لیکن جو بات سمجھنے اور سمجھانے کی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا کے سامنے تین ممالک کے عزائم اور رویے قابل غور ہیں اور اہل پاکستان کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کن کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان میں ایک امریکا ہے، دوسرا بھارت اور تیسرا ایران۔ امریکا وہ ملک ہے جو پوری دنیا پر حکومت کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے اور خاص طور پر مسلمان اس کے نشانے پر ہیں۔ اس قسم کی چال بھی جنگی حکمتِ عملی کا حصہ ہوتی ہے کہ سب پر یک دم دھاوا بولنے کے بجائے ایک ایک کرکے اپنے مخالفین کا خاتمہ کیا جائے۔ اگر دنیا کے سارے انسانوں کو تقسیم کیا جائے تو ایک گروہ اہل ’’حق‘‘ کا ہوگا اور دوسرا گروہ اہل ’’کفر‘‘ کا۔ اس وقت پوری دنیا میں مسلمانوں کی تعداد کھربوں میں ہے۔ یہ بھی تسلیم کہ دنیا میں جتنے بھی مسلمان اس وقت آباد ہیں ان کا کردار بھی کوئی مثالی نہیں بلکہ وہ بے شمار غیر انسانی معاملات میں اہل کفر و شرک سے بھی کئی ہاتھ آگے ہیں۔ پچاس سے زیادہ ممالک میں مسلمانوں ہی کی حکمرانی ہے۔ چند مسلم ممالک کے سوا سارے مسلمان ممالک بلحاظ وسائل دولت سے مالا مال ہیں لیکن اس کے باوجود اپنی ناقص پالیسیوں اور اسلامی تعلیمات کے خلاف طرز حکمرانی اختیار کرنے کے سبب وہ زبوں حالی کا شکار ہیں۔ ان سب خرابیوں اور اسلام سے دوریوں کے باوجود اہل کفر مسلمانوں کو اپنے لیے مستقبل کا ایک بہت بڑا خطرہ تصور کرتے ہیں۔ ان کے سامنے مسلمانوں کی ایک تاریخ ہے اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جس وقت بھی دنیا کے مسلمانوں کی ’’مسلمانیت‘‘ بیدار ہوگئی تو وہ آندھی طوفان کی طرح ان پر چھا جائیں گے اور ان کے سارے دفاعی نظام اور دنیا کو تباہ و برباد کردینے والے جنگی ساز و سامان مٹی کا ڈھیر ثابت ہوںگے۔ یہی وہ خوف و ڈر ہے جس کی وجہ سے دنیا کے تمام اہل کفر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر اس بات کی کوشش میں مصروف ہیں کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو نہ صرف غلام بنا کر رکھ دیا جائے بلکہ انہیں دنیا ہی سے نیست و نابود کر دیا جائے تاکہ وہ پوری دنیا کا نظام اپنی مرضی منشا کے مطابق چلا سکیں۔
پوری دنیا میں مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے اور نجانے کتنے ممالک ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کے ساتھ وہ بہیمانہ سلوک کیا جارہا ہے جو جانوروں کے ساتھ بھی روا نہیں رکھا جاتا جس میں چین اور میانمر سرِ فہرست ہیں۔ نیا دیکھ رہی ہے کہ ان دونوں ممالک میں مسلمان کس اذیت کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن کہیں سے بھی ان کے حق میں کوئی آواز بلند ہوتی نظر نہیں آرہی۔
امریکا نے تو جیسے قسم کھائی ہوئی ہے وہ دنیا بھر کے اسلامی ممالک کو جب تک بالکل تباہ و برباد کر کے اپنا غلام نہیں بنالے گا اس وقت تک وہ کسی طور چین سے نہیں بیٹھے گا اور جو ملک بھی اس کی ہاں میں ہاں ملانے کے لیے تیار و آمادہ نہیں ہوگا وہ اسے زندہ نہیں رہنے دے گا۔
خبروں کے مطابق امریکی مفادات کو زک پہنچانے والا ایران کا جنرل قاسم امریکی ڈرون حملے میں شہید کر دیا گیا۔ تفصیل کے مطابق ’’امریکی فضائی حملے میں ایرانی پاسداران انقلاب کی اعلیٰ تربیت یافتہ قدس فورس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی سمیت 8افراد شہید ہوگئے۔ یہ وہ سلیمانی ہیں جن کو مشرق وسطیٰ کی ایرانی پالیسی کا معمار خیال کیا جاتا تھا‘‘۔ ایران خمینی انقلاب کے بعد سے تا حال امریکی غلامی یا دباؤ میں آنے کے لیے تیار نہیں اور اپنے امریکی مخالفت کے موقف پر سختی کے ساتھ ڈٹا ہوا ہے۔ ایران کی اس پالیسی کی وجہ سے ایران امریکا کی جانب سے لگائی گئی بہت ساری پابندیوں کو بھی برداشت کیے ہوئے ہے لیکن تمام تر اقتصادی اور تجارتی پابندیوں کے باوجود بھی امریکا کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جنرل قاسم کی شہادت اسی واضح پالیسی کا شاخسانہ ہے۔
ایران جس کی پالیسی خمینی انقلاب کے بعد سے امریکی پالیسیوں کے نہ صرف سخت خلاف رہی ہے بلکہ اس کے رویے میں جو جرأت، ہمت اور شجاعت نظر آ رہی ہے وہ نہ صرف خوش کن ہے بلکہ قابل تحسین بھی ہے۔ ایران ایک ایسا ملک ہے جو اقتصادی لحاظ سے کوئی خوشحال ملک نہیں اور نہ ہی خطے کی قابلِ ذکر عسکری طاقت ہے۔ بے شک وہ ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے لیے مسلسل کوشاں ہے لیکن امریکا کی لگائی گئی پابندیوں کی وجہ سے بین الاقوامی جکڑ بندیوں کا شکار ہے۔ تمام تر پابندیوں اور بین الاقوامی جکڑبندیوں کے باوجود ایٹمی پروگرام کو رول بیک نہ کرنے کا عزم بھی امریکا کی کی ناراضی کا ایک بڑا سبب ہے۔ جنرل قاسم کی شہادت کے بعد ایران نے بہت واضح انداز میں امریکا کو آگاہ کر دیا ہے کہ وہ جوابی وار کے لیے تیار رہے۔ ممکن ہے کہ ایران جوابی وار کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے لیکن اس کے اس عزم کے اظہار میں ایک دلیری اور آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا انداز تو ظاہر ہوتا ہے جس کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔
اسی خطے میں ایک اور ملک بھی پایا جاتا ہے جسے پاکستان کہتے ہیں جس کی پالیسی امریکا کے سامنے ہمیشہ ’’جی آیا نوں‘‘ ہی رہی ہے۔ اس پالیسی کی وجہ سے اب تک اس کے ساتھ وہ کچھ تو نہیں ہوا جو افغانستان یا عراق کے ساتھ ہو چکا ہے لیکن کیا پاکستان یہ بتا سکتا ہے کہ وہ ’’جی آیا نوں‘‘ کی وجہ سے دنیا کے کن کن ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں داخل ہو سکا ہے۔ مان بھی لیا جائے کہ وہ (ممکن ہے) عراق، افغانستان یا ایران کے مقابلے میں زیادہ بہتر پوزیشن میں ہے لیکن اس پر بھی تو غور کرنا ہوگا کہ ایسا سب کچھ امریکا کی غلامی قبول کرنے یا چین کا دست نگر ہونے کی وجہ سے ہے مگر اپنے بل بوتے کا اس میں نہ تو کوئی عمل ہے اور نہ دخل۔ پاکستان کا رویہ جیسا کل تھا ویسا ہی آج ہے اسی لیے ایران کے جنرل کی شہادت کے بعد ایران کی جوابی کارروائی کے اعلان کے بعد جو بیان پاکستان کی وزارت خارجہ کی جانب آیا وہ کسی بھی لحاظ سے ستائش کے قابل نہیں۔ وزارت خارجہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ’’تمام فریقین اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے مطابق زیادہ سے زیادہ تحمل کا مظاہرہ کریں، صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے تعمیری انداز میں رابطہ کریں اور سفارتی سطح پر معاملات حل کریں‘‘۔
اگر سرسری نظر سے دیکھا جائے تو پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ یہ بیان ایک اعتدال پسندانہ بیان ہے لیکن کیا ہر جارحیت کا جواب تحمل ہی ہوتا ہے؟۔ کیا پاکستان کی جانب سے ہر قسم کی صورت حال پر یہی ’’تحمل‘‘ پاکستان پر منڈلانے والے جنگ کے بادلوں کو گہرے سے گہرا نہیں کرتا جارہا۔ کیا یہی تحمل پاکستان کی اقتصادی بد حالی کا سبب نہیں بنتا جارہا۔ کیا یہ تحمل فلسطین، میانمر اور چین کے مسلمانوں کو تحفظ فراہم کر رہا ہے۔ کیا ایران کی مضبوطی کا سبب ہے۔ کیا ہمارے خارجی تعلقات کو بڑھوتری بخش رہا ہے۔ کیا کشمیر کے مسلمانوں کے لیے راہ نجات ثابت ہو رہا ہے اور کیا پاکستان کی خود کفالت بن گیا ہے؟۔ اگر ان تمام سوالوں کے جوابات مثبت ہیں اور پاکستان کے وقار میں اضافے کا سبب ہیں تو بہت خوب لیکن اگر ہر سوال کا جواب نفی میں ہے تو پھر دنیا کی ہر جارحیت کے جواب میں تحمل کے تعلیم پر لعنت بھیج کر کسی بھی مسلمان یا مسلمان ملک پر جارحیت کو اپنے اوپر حملہ سمجھنا ہوگا اور کوئی سے بھی مسلک والا ملک ہو اسے صرف اور صرف اسلامی ملک اور اپنا بھائی ہی خیال کرنا ہوگا ورنہ دنیا کے سارے بھیڑیے ایک ایک کرکے سارے مسلمانوں اور اسلامی ممالک کو ہڑپ کر جائیں گے۔