پرنالا وہیں گرے گا۔۔!

268

پنکھ کا فیصلہ کچھ بھی ہو مگر پرنالا وہیں پر گرے گا۔ اس کہاوت کو پارلیمنٹ کی تینوں بڑے پارٹیوں نے اس وقت درست ثابت کردیا جب انہوں نے آئین میں ایسی ترمیم کر ڈالی جس کی اس وقت چنداں ضرورت نہیں تھی یہاں تک کہ اس میں واضح کردیا کہ آئندہ اس ترمیم کے تحت کیے جانے والے فیصلوں کو کسی عدالت میں بھی چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ یعنی یہ واحد قانون ہوگا جو ہر طرح کے خطرات سے پاک ہوگا میدان صاف ہوگا اور گول پوسٹ بھی خالی ہوگا۔ اگرچہ کہ اس فیصلے بلکہ اس کے پیش کرنے سے پہلے کی خبروں پر ہی پوری قوم انگشت بدنداں تھی مگر کیا کہیے کہ پوری قوم کے پنکھ کا فیصلہ کچھ بھی ہو مگر پرنالا وہیں گرے گا۔ پارلیمنٹ کے اس ’’تاریخی‘‘ فیصلے نے ثابت کردیا کہ قوم کی وہ رائے درست تھی کہ اس ملک پر 1948 ہی سے ٹرائیکا نے قبضہ جما لیا ہے جو روز بروز مضبوط سے مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ اب ایک فریق کو تو کھلی چھوٹ مل گئی ہے دیکھیے آئندہ دو فریقوں کو کب اور کس طرح ہر طرح کی تنقید اور عدالت سے مبرا کیا جاتا ہے۔
بد عنوانی، لوٹ مار اور کرپشن کی دیگ تو پہلے ہی گرم کی جا چکی تھی جس کو مزید گرم کرنے کے لیے ہر آنے والی حکومت نے اس کے نیچے سے انگارے گھسیٹنے کے بجائے مزید لکڑیاں رکھی ہیں اس طرح ہر طرح کی بدعنوانی کرپشن اور لوٹ کار کو باقاعدہ ایک انڈسٹری کی حیثیت دے دی گئی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اگرچہ کہ اوپر والا بدعنوان نہ بھی ہو مگر ہاتھی کے دانت کی طرح اس کو چیف ایگزیکٹیو بنا دیا جاتا ہے اور نچلی سطح پر وہی نظام پرورش پاتا رہتا ہے جس کے خلاف ہر آنے والے نے بلند بانگ دعوے کیے تھے۔ نورالامین سے لیکر سہروردی تک خواجہ ناظم الدین سے لیکر ذوالفقار علی بھٹو اور پھر عمران خان نیازی تک سب کے بارے میں یہی کہا جاتا رہا ہے کہ یہ سب بڑے ایماندار اور کرپشن کی آلودگی سے پاک ہیں مگر تاریخ شاہد ہے کہ ان سب کے ادوار میں کرپشن نے دن دونی رات چوگنی ہی ترقی کی ہے۔ ظاہر ہے کر ایک کے پیچھے کوئی نہ کوئی قوت تو موجود رہی ہے جو کرپشن کے اس عفریت سے قوم کو چھٹکارا نہ دلا سکی۔ میڈیا پرسنز کو بھی شاید سوال اٹھانے کی اجازت نہیں کہ مبادہ توہین وردی ہوجائے۔
آئین کی جس شق کو بڑی شد ومد سے تبدیل کیا گیا ہے وہ آرمی چیف کی مدت ملازمت اور توسیع ملازمت کی شق ہے۔ مدت ملازمت کی عمر 64 سال کردی گئی ہے لیکن یہ واضح نہیں کہ اس میں ایکسٹینشن شامل ہے یا نہیں یا 64 سال کی عمر کو پہنچ کر پھر مزید 3 سال کی ایکسٹینشن حاصل کی جاسکے گی اس طرح ایک CNC کیا 67 سال کی عمر تک خدمات سر انجام دے سکے گا۔ ماضی کی دستوری دستاویزات میں آخر وہ کون سے سقم تھے جن کو اتنی عجلت میں تبدیل کرنے کا خیال آگیا اگر وہ اتنے ہی ضروری تھے تو 50/60 سال میں ان کو تبدیل کرنے کا خیال کیوں نہ آیا۔ کیا ہم اس کو مستقل غیر اعلانیہ مارشل لا نہیں کہہ سکتے اس فیصلے کے بین الاقوامی سطح پر خاص طور پر خارجہ پالیسی کے حوالے سے کیا نتائج مرتب ہوتے ہیں اور بیرونی سرمایہ کاری پر کیا اثرات پڑتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ اگر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع اتنی ہی ضروری تھی تو 1956 کے دستور میں ہی اس کو طے کردینا چاہیے تھا اور پھر مرد آہن ایوب خان جن کی نسلیں اب ہر حکومت میں وزارتوں کے مزے لے رہی ہیں کوئی اس میں ترمیم کر دینی چاہیے تھی مگر پانچ چھ دہائیوں کے بعد اس کا خیال نہیں آیا۔