کراچی(اسٹا ف رپورٹر)سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کی ڈائریکٹر ڈاکٹر فرحانہ میمن نے کہا ہے کہ صحت عامہ کا مسئلہ مل بیٹھ کر اور مشترکہ کوششوں سے ہی حل ہوسکتا ہے۔ اس حوالے سے متبادل ادویہ پر ہمدرد انٹرنیشنل کانفرنس کا انعقاد اس مقصد کے حصول میں مددگار ثابت ہوگا اور ان کاوشوں کو مہمیز دے گا،
وہ ”متبادل طریقہئ علاج کی عالمی مقبولیت، ذمہ داریاں اور چیلنجز“ کے موضوع پر 9 تا11 جنوری2020 منعقدہ پانچویں ہمدرد تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس کے اختتامی اجلاس سے بیت الحکمہ آڈیٹوریم، مدینتہ الحکمہ میں خطاب کر رہی تھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کامیاب کانفرنس کے انعقاد پر وہ ہمدرد پاکستان اور منتظمین کانفرنس کو مبارک باد دیتی ہیں اور طب یونانی کے فروغ کے لیے ہمدرد کی کوششوں کو سراہتی ہیں،
ہمیں اپنی تہذیبی اور خاندانی روایات پر واپس آنا ہے اور بریسٹ فیڈنگ یعنی ماں کو اپنے بچے کو اپنا دودھ پلانے پر زور اور رواج دینا ہے۔ ہماری پرانی چیزیں بہتر ہیں، ہماری ہربل ادویہ اچھی ہیں، انہوں نے کہا کہ حکیم محمد سعید کے طبی کارناموں، ان کی تحقیق اور دریافتوں کو لوگوں تک پہنچانا ضروری ہے تاکہ لوگ طب کے بارے میں جان اور اس سے استفادہ کر سکیں،
انہوں نے کہا کہ مسئلہ صحت کے حل کے لیے وہ نیشنل کونسل فار طب سے کہتی ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ بیٹھ کر بات کریں اور اس مسئلے کے حل کی تجاویز زیر غور لائیں اور کوئی فیصلہ کریں کیونکہ یہ مسئلہ باہمی کوششوں، تعاون اور صلاح و مشورے سے ہی حل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جدید طب اور جدید تحقیق اب بریسٹ فیڈنگ پر زور دے رہی ہے، جو ہمارے معاشرے میں صدیوں سے رائج تھا مگر جسے ہم نے ماڈرن بننے کے زعم میں خاص طور پر شہروں میں ترک کر دیا تھا،
ہمدرد یونی ورسٹی کی فیکلٹی اوف ایسٹرن میڈیسن کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر اعجاز محی الدین نے ”عظم غداقدامیہ (پروسٹیٹ گلینڈ کی بیماری) میں یونانی ادویہ کی کلینکل جانچ“ کے موضوع پر اپنا پرمغز مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس بیماری میں پروسٹیٹ گلینڈ متاثر ہوتے ہیں،
ہم نے اس بیماری کے 100 مریضوں کو منتخب کیا جن میں سے پچاس کو طب یونانی ادویہ اور پچاس کو ایلوپیتھک ادویہ دی گئیں۔ علاج کے آخیر میں ہم نے یونانی دوا کو ایلوپیتھک دوا ”ٹیرا زوسن“ سے زیادہ موثر پایا،
انہوں نے کہا کہ ”دل سکھ“ کا نسخہ شہید حکیم محمد سعید نے ترتیب دیا تھا جسے ہمدرد نے اب کیپسول کی شکل میں تیار کیا ہے۔ ہمدرد یونی ورسٹی کی ڈین ریسرچ پروفیسر غزالہ حفیظ رضوانی نے کانفرنس کی سفارشات پیش کیں جسے اجلاس نے متفقہ طور پر منظور کیا،
سفارشات میں کہا گیا کہ متبادل ادویہ کے تعلیمی اداروں اور صنعتوں کے درمیان رابطوں کو مربوط کیا جائے تاکہ متبادل طریقہئ علاج کی حوصلہ افزائی ہو سکے، اس کانفرنس جیسے سائنسی اجتماعات کو جلد جلد منعقد کیا جائے،
اداروں کے رابطے بڑھانے کے لیے طلبہ کے تبادلوں کے انتظامات کیے جائیں، جامعات کی فیکلٹیز کے تبادلوں کے پروگرامز بھی ترتیب دیئے جائیں، متبادل ادویہ کی سائنسی توثیق کے لیے مشترکہ ریسرچ پروجیکٹس شروع کیے جائیں،ایسی کانفرنسوں میں زیادہ سے زیادہ غیرملکی محققین کومدعو کیا جائے،
ٹیکنیکل ٹریننگ کورسز کی حوصلہ افزائی کی جائے، ہمدرد مطب آرام باغ روڈ، کراچی کو قومی ورثہ قرار دیا جائے، نیشنل کونسل فار طب طبیبوں /حکیموں کی کلینیکل پریکٹس کی وسعت کا تعین کرے، کمیونٹی کی کردار سازی کے لیے باہمی تعاون کی حوصلہ افزائی کی جائے،
حکیم، ڈاکٹر، ہومیو پیتھ اور کمیونٹی لیڈرز مریضوں کی جلد صحت یابی کے لیے ان کی کونسلنگ کریں، متبادل طریقہئ علاج میں ریسرچ اور پریکٹس پر بھرپور توجہ دی جائے اور اس کی تعلیم کو بہتر سے بہتر کیا جائے،کلینکس شروع کرنے سے پہلے پری کلینکل تجربات و مشاہدات اور مطالعے پر کماحقہ توجہ دی جائے،
ہرطریقہ علاج اپنی فلاسفی کے مطابق اپنی تعلیم و تربیت اور تحقیق کو فروغ دے اورمتبادل طریقہئ علاج مستقبل کا طریقہئ علاج ہے، تاہم اس کے علاج اور ادویہ کے معیارات کا تعین لازمی ہے،
آخر میں پروفیسر ڈاکٹر غزالہ حفیظ رضوانی نے کلمات تشکر پیش کیے۔ اجلاس میں ہمدرد یونی ورسٹی کی چانسلر سعدیہ راشد، وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر شبیب الحسن اور ہمدرد لیباریٹریز (وقف) کی منیجنگ ڈائریکٹر اینڈ سی ای او فاطمہ منیر احمد کے علاوہ ماہرین طب و صحت، اطبا اور طلباء نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔