میز پر بوٹ

223

 بات بڑی ہے۔ فوجی بوٹ میز پر رکھا گیا پھر یہی نہیں میز پر رکھ کر اپوزیشن جماعتوں کو یہ بھی کہا گیا کہ اُن کے رہنما سمجھوتے کرتے ہیں، لہٰذا انہیں بڑی بڑی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ یہ جملہ دو دھاری ہے۔ کہنے والا تو کہہ گیا لیکن دیوار پر پڑ کر واپس آنے والی گیند کی طرح یہ جملہ بھی کہنے والے اور اُن کی جماعت کی طرف پلٹ آیا۔ وہ بھی تو وہی کرتے ہیں جی ہاں سمجھوتے اور بڑی بڑی باتیں۔ جن کو انہیں نبھانا مشکل ہوتا ہے اور پھر یوٹرن کی طرف جانا پڑتا ہے۔یہ حرکت اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ کیا کچھ کرسکتے ہیں۔ اہم یہ بھی ہے کہ بوٹ کی اجازت کے بغیر نہ بوٹ چینل کی عمارت کے اندر جاسکتا تھا نہ میز پر رکھا جاسکتا تھا اور نہ کہنے والا اپنے منہ سے کچھ اس بارے میں کہہ سکتا تھا۔ سو ہے تو یہ گھٹیا حرکت۔ تہذیب کے خلاف، اس حرکت نے انہیں ان کی جماعت کو پاکستان کی سیاست اور فوج کو تماشا بنادیا۔چینلز کی ریٹنگ کو دیکھا جائے تو چینلز کے بہت سے مالکان نے سوچا کہ یہ تماشا کاش ہمارے شو میں رچایا جاتا ۔ ہر چینل نے اس شو کے متعلقہ حصے کو بار بار چلایا۔ اخبارات نے خبر شائع کی اور کالم بھی۔ جیسے ہم نے بھی یہ موضوع چنا۔ لیکن موضوع بوٹ نہیں ہے وہ بھی فوجی بوٹ، ہمارا موضوع تو وہ بات ہے جو میز پر فوجی بوٹ رکھنے والے نے کہی۔ اگرچہ بہتر درست اور سنجیدہ الفاظ استعمال نہیں کیے گئے لیکن یہ بات ضروری بحث اور غوروفکر کا تقاضا کرتی ہے۔ یعنی سوال بڑا اہم ہے کہ کیا سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے اتنی تابع ہوگئی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست ہی ختم ہوگئی ہے۔ سوائے جماعت اسلامی سمیت چند دیگر جماعتوں کے۔ خاص طور سے اس بل پر جماعت اسلامی نے کچھ تجاویزات دیں تھیں، جماعت اسلامی کے رہنما سینیٹر مشتاق احمد خان نے قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے اجلاس میں رکن کی حیثیت سے شرکت کی۔ انہوں نے اس میں کہا تھا کہ حکومت کی طرف سے بہت عجلت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ پارلیمنٹ پر دبائو محسوس ہورہا ہے۔ افراتفری اور بڑی جماعتوں کی طرف سے جلد بازی کا ماحول ہے۔ اجلاس میں انہوں نے تجویز دی تھی کہ آرمی قانون کے حوالے سے دوسرے ممالک کے قانون کو دیکھا جائے اور دور رس نتائج کو مدنظر رکھ کر قانون سازی کی جائے۔ اس بل میں فوجی سربراہ کی سبکدوشی کی عمر 64 سال کردی گئی ہے اور ساتھ وزیراعظم کو صوابدیدی اختیارات دے دیا گیا ہے۔ یہ ترامیم اور اتنی جلد بازی میں ان کو پاس کرانا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ گویا قانون سازی شخصیات کے لیے کی جارہی ہے۔ اس طرح کا انداز سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر سوال کھڑا کرتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں جمہوری نظام کی بنیادوں کو کمزور کرتا ہے۔ بڑی جماعتیں جن میں خود کسی طرح کا جمہوری نظام موجود ہے اور افراد اور خاندان کے گرد ہی سارا معاملہ رہتا ہے۔ دراصل یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ وہ خود ہی جمہوریت کو کمزور کرتی ہیں اپنے اپنے مفادات کے لیے۔
ن لیگ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے اس بل کی حمایت میں جس طرح جلد بازی سے فیصلہ کیا ہے۔ لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ افراد کو بچانے کے لیے یہ سودے بازی اختیار کی گئی۔ جس طرح بل منظور ہوا یعنی 30 سیکنڈ میں اس نے تو عالمی ریکارڈ ہی بنا ڈالا۔ یہ بات بھی ہے کہ اب (ن) لیگ اور پی پی کو عمران خان کو سلیکٹڈ وزیراعظم کہنا زیب نہیں دے گا، شاید اب وہ انہیں الیکٹڈ کہنا شروع کردیں۔ لہٰذا پی ٹی آئی نے سُکھ کا سانس لیا ہے کیوں کہ اس سارے معاملے میں اس کے لیے مثبت یہ ہے کہ وہ الزام جس کو اب تک پی ٹی آئی پر زور و شور سے دونوں بڑی جماعتیں لگاتی چلی آرہی تھیں اب خود ان پر سارا میڈیا ببانگ دہل یہ الزام یوں لگارہا ہے کہ بوٹ میز پر سجا ہے۔ شوشا یہ بھی چھوڑا گیا ہے کہ بیکار ہی اتنی دھول اُڑائی گئی، بوٹ فوجی تھوڑی تھا۔ ہائیکنگ یعنی پہاڑوں پر چڑھنے والا تھا۔ لیکن بوٹ تو بوٹ ہوتا ہے خواہ فوجی ہو یا ہائیکنگ والا۔ کہنے والے کی بات حق کی ہے کہ اگر تم مجھے اسٹیبلشمنٹ کے بندے کہتے ہو تو اپوزیشن کی ساری بڑی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی ہیں۔ ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ تو بس یوں ہی ہے، بھلا عوام کے بارے میں کون سوچتا ہے؟ ووٹ کو عزت دینا بھی ہے تو صرف اُس ووٹ کو عزت دو جو مجھے ملیں ہیں۔ چند ووٹوں کے فرق سے حکومت میں بیٹھنے والے اصطبل میں گھوڑوں کی خریداری کرتے نہیں تھکتے۔ میڈیا ہائوسز اور چینل مالکان کو بھی سوچنا چاہیے۔ کشمیر میں خوف کے سناٹے کو ڈیڑھ سو دن گزر گئے۔ وزیراعظم کی معاون خصوصی انڈیا کی صحافی کو مقبوضہ کشمیر میں ظلم و درندگی کا پردہ چاک کرنے پر سراہا رہی ہیں۔ انہیں اپنے میڈیا کی بھی کچھ خبر لینی چاہیے جو کشمیر کے معاملے میں خاموش ہے، حکومت خود کشمیر کو بھولے ہوئے ہے، سب کی توجہ تو ابھی بس میز پر سجے بوٹ پر ہے۔