نیوز ڈیسک
’دوا گوگل نہ کریں،مستندڈاکٹر اور سائیکاٹرسٹ کے پاس جائیں ہو سکتا ہے کہ آپ نے کبھی گوگل کیا ہو کہ آپ ہر وقت اداس، مایوس یا غصے میں کیوں رہتے ہیں؟ یا یہ کہ آپ کو نیند کم یا بہت زیادہ کیوں آ رہی ہے؟ یا آپ کے کھانے پینے کے معمول میں بڑی تبدیلی کیوں آ گئی ہے؟ آپ کو مستقل پریشانی یا کوئی خوف کیوں ہے؟ یا آپ کو جینے سے نفرت کیوں ہو رہی ہے؟
جواب میں ایک لامتناہی فہرست کھلتی ہے جسے دیکھنے کے بعد آپ سوچیں گے کہ شاید آپ پاکستان کی اس 20 فیصد آبادی کا حصہ ہیں جو ڈپریشن یا کسی اور ذہنی مرض کا شکار ہے۔
اگر آپ نوجوان ہیں تو ہو سکتا ہے کہ آپ اس 36 فیصد نوجوان طبقے کا حصہ ہوں جو ڈپریشن یا کسی اور ذہنی مرض کے ساتھ خاموشی سے لڑ رہا ہے۔
لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ اگر آپ کے ذہن میں ایسے سوالات جنم لے رہے ہیں تو گوگل کی بجائے ایک مستند ماہرِ نفسیات کے پاس جائیں۔
ڈپریشن آپ کی نیند اور روزمرہ معمولات زندگی خراب کرنے سے شروع ہو کر خودکشی تک پہنچا سکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں ہر چالیس سیکنڈ میں ایک شخص خودکشی کر رہا ہے اور یہی دنیا بھر میں منائے جانے والے ذہنی صحت کے عالمی دن کا مرکزی خیال بھی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں رپورٹ ہونے والے خودکشی کے مقدمات میں سے 90 فیصد کا تعلق ڈپریشن یا دیگر ذہنی امراض سے ہے۔ یہاں اس معاملے پر بات کم کی جاتی ہے، بطور معاشرہ ذہنی امراض کا شکار افراد کا ساتھ دینے کا رحجان کم اور علاج کے لیے سہولیات اور معالج دونوں ہی کا فقدان ہے۔
تاہم گزشتہ چند برسوں میں لوگوں میں اس معاملے میں آگہی ہوئی ہے، تو ملک میں جگہ جگہ نفسیاتی ماہرین کے کلینک کُھل رہے ہیں۔ تاہم ان ماہرین کی تعلیم کیا ہے، تجربہ کیا ہے اور کیا یہ مریضوں کو ادویات دینے کے مجاز ہیں۔
یہ سوال پوچھا جاتا ہے نہ ہی اس بارے میں سرکاری اعداد وشمار موجود ہیں مگر یہی اب سب سے بڑا خطرہ بن گیا ہے۔مریض جب بھی ماہر نفسیات کے پاس جائے، ان سے معلوم کریےکہ ان کی تعلیم اور تجربہ کیا ہے۔ہمارے ہاں اس سوال کا برا منایا جاتا ہے جو کہ غلط ہے، آپ مریض ہیں اور یہ جاننا آپ کا حق ہے کہ آپ کا علاج کون کر رہا ہے، کیا ادویات دی جا رہی ہیں۔