کرونا وائرس کسی کو منتقل ہوجائے تو 6فٹ کےدائرےمیں اس کے پھیلنے کےامکانات بہت زیادہ ہیں،طبی ماہرین

874

کراچی(اسٹاف رپورٹر)ماہرین صحت نے کہا ہے کہ کرونا وائرس سانس کے ذریعے پھیلنے والی نئی بیماری ہے اس کا فی الحال دنیا میں کوئی علاج نہیں 98فیصد افراد میں اس کا وائرس خود ہی ختم ہوجاتا ہے مگر صفائی اور احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرکے اس موذی مرض سے بچا جاسکتا ہے،کرونا وائرس کا تعلق کرونا فیملی سے ہے جس میں سارس اور مرس پہلے 2002اور 2012 میں ظاہر ہوچکے ہیں۔ یہ باتیں انہوں نے کراچی پریس کلب میں ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے اشتراک سے منعقد ہونیوالے آگاہی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہی،

اس موقع پر پریس کلب کے سیکرٹر ی ارمان صابراور جوائنٹ سیکرٹری ثاقب صغیر نے بھی خطاب کیا۔سیمینار میں پریس کلب کے خازن راجہ کامران، گورننگ باڈی کے رکن لیاقت مغل اور صحافیوں کی بڑی تعداد بھی موجود تھی،ڈاؤ لیب کی ڈائریکٹرپروفیسر شاہین شرافت نے کہا کہ کرونا وائرس کی علامات اے ٹائپ نمونیا، بخار اورفلو ہیں۔ عام طور پر نمونیا کی دواؤں سے اس کا علاج کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس کا فی الحال دنیا میں کوئی علاج موجود نہیں صرف علامتی علاج کیا جاتا ہے جس میں بخار کی شدت میں کمی، سانس کی بحالی کیلئے آکسیجن اور دیگر اقدامات کئے جاتے ہیں،

اس موقع پر انہوں نے کہ عام طور پر کرونا وائرس کے ظاہر ہونے میں 2سے 14دن لگتے ہیں اور اس کے ٹھیک ہونے کا کوئی عرصہ مقرر نہیں،یہ مختلف انسانوں کی قوت مدافعت پر منحصر ہے،انہوں نے کہا کہ خدانخواستہ یہ مریض کسی کو منتقل ہوجائے تو 6فٹ کے دائرے کے اندر اس کے پھیلنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں دنیا میں سب سے زیادہ جو بیماریاں تیزی سے پھیلتی ہیں ان میں سانس کی بیماریاں ہیں اس لئے ضروری ہے کہ اس کا علاج کرنیوالے ڈاکٹر اور عملے کا ایک خاص محفوظ لباس رکھا جائے جبکہ مریض اور عملے سمیت تمام افراد ماسک کا استعمال کریں،

انہوں نے کہا کہ ہاتھ اچھے طریقے سے دھو کر اور جانوروں سے فاصلہ رکھ کر اس قسم کے وائرس سے بچا جاسکتا ہے۔ جانوروں کو چھونے میں کوئی ہرج نہیں مگر اس کے بعد ہاتھ دھونا لازمی ہے،

پروفیسر محمد سعید خان نے کہا کہ آج تک کے اعداد و شمار کے مطابق کرونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 575کے لگ بھگ ہے جبکہ اس سے ٹھیک ہونیوالوں کی تعداد 1261ہے جبکہ 28ہزار سے زائد لوگ دنیا کے 25ملکوں میں اب تک اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو اس بیماری کے ٹھیک ہونے کے امکانات زیادہ ہیں،اگر احتیاطی تدابیر پر عمل اور ضروری اقدامات کئے جائیں تو اس موذی مرض سے نمٹا جاسکتا ہے۔ اس سے قبل جو دنیا میں وبائی امراض پھیلے ہیں ان میں ایبولا سے ہلاکتوں کی تعداد 40فیصد ہے اس لئے گھبرانے کی نہیں، اقدامات کی ضرورت ہے،

انہوں نے کہا کہ حکومت چین نے اس مرض سے نمٹنے کیلئے تیزی سے اقدامات کئے، سارس کی طرح اس مرتبہ انہوں نے مرض کو چھپانے کی غلطی نہیں کی اس وقت چین میں 4کروڑ 60لاکھ افراد کو محصور کردیا گیا ہے،

یہ بہت بڑا اقدام ہے لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے سے روکنا انسانی آزادی کے خلاف تصور کیا جاتا ہے لیکن چین نے یہ اقدام کرکے بہت زیادہ انسانوں میں یہ مرض پھیلنے سے روک دیا ہے،

انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان نے بھی جو اقدامات کئے ہیں وہ اطمینان بخش ہیں، ڈاؤ یونیورسٹی سمیت کراچی کے 4مقامات آئیسولیشن وارڈ بنادیئے گئے ہیں جبکہ ٹیسٹ کی کٹس آئندہ ہفتے پاکستان پہنچ جائے گی،انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کا ٹیسٹ بہت زیادہ احتیاط سے کیا جاتا ہے اس کا سیمپل زیادہ درجہ حرارت پر ناکارہ ہوجاتا ہے اس لئے اسے مائنس 70ڈگری پر محفوظ کرنا ضروری ہے۔ پاکستان میں اس وقت نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد میں کرونا وائرس کی ٹیسٹ کی سہولت موجود ہے مگر وہاں تک سیمپل کا پہنچانا ایک مشکل عمل ہے،

انہوں نے کہا کہ کم عمر افراد یا بوڑھے کینسر یا شوگر کے مریض اس انفیکیشن سے جلدی متاثر ہوسکتے ہیں۔ ابتدائی طور پر اس کا علامتی علاج زیادہ مشکل نہیں تاہم پھیپھڑوں میں سوزش کی صورت میں یہ مرض پیچیدہ ہوجاتا ہے،

انہوں نے کہا کہ چائنا سے آنیوالی اشیاء یا پارسل تحائف وغیرہ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ بے جان اشیاء اور طویل دورانیے میں کرونا وائرس زندہ نہیں رہ سکتا ہے۔