نیو ورلڈ آرڈر اور کرونا وائرس آخری حصہ

1510

نیو ورلڈ آرڈر کے تحت دو کام کیے گئے۔ ایک تو کسی بھی ملک پر کسی قوم کی حکومت نہیں رہی بلکہ ہر جگہ پر اپنے ایجنٹ بٹھاد یے گئے اور دوسرے ہر ملک کو بینکوں کے زبردست قرضوں میں جکڑ دیا گیا۔ اس کے لیے کہیں پر جنگوں کا جال بچھایا گیا تو کہیں پر کرپٹ لوگ حکمران بنائے گئے جنہوں نے ترقیاتی کاموں کے نام پر اربوں ڈالر بینکوں سے قرض لیے۔ برونائی جیسے ننھے ایک آدھ ملک کو چھوڑ کر دنیا کا کون سا ملک ہے جو بھاری قرض تلے دبا ہوا نہیں ہے۔ جتنا بڑا ملک ہے، اتنا ہی زیادہ قرضہ ہے۔ امریکا کا قرض 23.4 ٹریلین ڈالر کا ہوچکا ہے جس میں ہر لمحے ہی اضافہ ہورہا ہے۔ امریکی قوم پر قرض اس کی مجموعی قومی پیداوار کا 107 فی صد ہے۔ چین 8.54 ٹریلین ڈالر، جاپان 11.4 ٹریلین ڈالر، جرمنی 2.3 ٹریلین ڈالر، برطانیہ 3.3 ٹریلین ڈالر، فرانس 2.8 ٹریلین ڈالر، بھارت 2.5 ٹریلین ڈالر اور اٹلی 2.8 ٹریلین ڈالر کے مقروض ہیں۔ قرض لینے والوں کی اس فہرست میں سارے ہی ممالک شامل ہیں۔ قرض لینے کا مطلب سب ہی جانتے ہیں۔ اس کا صاف اور واضح مطلب ہے کہ قرض لینے والے کو قرض دینے والے کے اشاروں پر ناچنا پڑے گا۔ یہ قرض دینے والے کہیں گے تو امریکا کی طرح پوری دنیا میں جنگ بھی لڑنا پڑے گی اور اگر کہیں گے تو پاکستان کی طرح پسپا بھی ہونا پڑے گا۔
دنیا کی ساری حکومتیں تو قابو میں آگئیں، اب مسئلہ عوام کو قابو میں کرنے کا تھا۔ یہ انبوہ عظیم کسی بھی وقت مسئلہ پیدا کرسکتا ہے۔ اس کے لیے کئی جہتی حکمت عملی پر کام شروع کیا گیا۔ سب سے پہلا کام یہی کیا گیا کہ آسائشات کو ضروریات زندگی میں بدل دیا گیا اور اب عوام کی اکثریت آسائشات کے حصول کے لیے دن رات کام میں مصروف ہوگئی۔ بچوں کی پیدائش کو بوجھ بنادیا گیا اور خاندانی نظام کو توڑ پھوڑ دیا گیا۔ یہاں تک تو معاملات قابو میں آگئے کہ لوگ کنوئیں کے مینڈک بن گئے اور اب کوئی مسئلہ عالمی نہیں رہا۔ فلسطین، عراق، افغانستان، بھارت، میانمر جہاں پر چاہے جو کر گزرو، کم از کم ان کا ردعمل اب عالمی نہیں رہا۔ دنیا کو قابو میں کرنے کے لیے نائن الیون ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ خود ہی دہشت گردی کی گئی اور پھر عوام کی سیکورٹی کے نام پر ان کی آزادیاں ایک ایک کرکے چھین لی گئیں۔ یہاں تک کہ ہوائی جہاز میں پانی تک لے جانا ممنوع قرار دے دیا گیا۔ جدید ترین آلات مواصلات اب فرد کی جاسوسی کے لیے استعمال کیے جانے لگے۔ موبائل فون اب ہر فرد کی ٹریکنگ کرتا ہے۔ مطلوبہ شخص کی فون پر نہ کی جانے والی بات چیت بھی موبائل فون سے ریکارڈ کی جاسکتی ہے، یہ بتاتا ہے کہ مطلوبہ شخص کا کس وقت کیا موڈ تھا، شوگر لیول اور بلڈ پریشر کیا تھا۔ لیپ ٹاپ اور دیوار پر لگا ہوا ایل ای ڈی ٹی وی بھی اب جاسوسی کا کام کرتے ہیں اور ان میں لگا کیمرہ آف ہونے کے باوجود سامنے کی آواز کے ساتھ مسلسل مووی بناتا ہے۔ اب ہاتھ میں چپ لگانے کا مرحلہ آن پہنچا ہے جس کے بعد جو کچھ خفیہ رہ گیا ہے، وہ بھی نہیں رہ جائے گا۔ یہ RFID چپ اسی طرح ہر شخص کو لگوانی لازمی ہوگی، جس طرح آج پاکستان میں ہر بچے کو پولیو کے قطرے پلانا لازمی ہیں۔ جو شخص اپنے بچے کو پولیو کے قطرے نہیں پلواتا، اسے گرفتار کرکے سزا دی جاتی ہے۔
کرونا وائرس برطانیہ میں کس طرح پیدا کیا گیا، امریکا میں اس کے پیٹنٹ، اس کی کمپیوٹر پر simulation exercise دیگر لیبارٹریوں کو اس کی ترسیل، کینیڈا میں دو چینی سائنسدانوں کی گرفتاری وغیرہ، اس بارے میں تو کسی کو کوئی شبہ نہیں ہے اور نہ کوئی سوال ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ اسی طرح چین پہنچایا گیا جس طرح میں نے لکھا ہے تو چین نے کس طرح سے اپنی قومی سلامتی پر سمجھوتا کیا اور خاموش رہا۔ یہ بات تو واضح ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں ان لوگوں کی حکمرانی ہے جو نیوورلڈ آرڈر لانے والوں میں یا تو شامل ہیں یا ان کے کارندے ہیں۔ چین کی بھی اس سلسلے میں کوئی تخصیص نہیں ہے۔ چین کی جو بھی ترقی ہے وہ ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کی کارکردگی ہے اور اسی طرح چین کی جو بھی کمائی ہے وہ چینی بینکوں کی ہے، چینی حکومت کی نہیں۔ یہ بات ثابت ہے کہ ایڈز سے لے کر زیکا تک سارے ہی وائرس لیبارٹری میں develop کیے گئے۔ کرونا پھیلانے کا مقصد ان تمام وائرس کو پھیلانے سے جدا تھا۔ یہ مقصد تھا دنیا کو خوفزدہ کرکے انہیں لاک ڈاؤن کرنے کا۔ اس مقصد کے لیے چین کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ وہاں پر پہلے سے ایک Totalitarian حکومت ہے۔ چینی حکومت کی کارکردگی کا اندازہ ایک بچہ فی خاندان پالیسی سے لگایا جاسکتا ہے۔ گزشتہ برس سے سنکیانگ کے دس لاکھ سے زاید مسلمانوں کو حراستی مراکز میں رکھنے سے بھی اس کی طاقت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ مطلوبہ ٹیسٹ کرنے کے لیے چین سے بہتر کوئی ملک نہیں تھا۔ چین میں اس کی تیاری کس حد تک تھی، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے چھ دن کے اندر دس ہزار بستروں کا اسپتال بنا کر ریکارڈ قائم کردیا۔ مگر جناب یہ سوچیے کہ چھ دن کے اندر اسپتال کس طرح سے بن سکتا ہے۔ یہ prefabricate قسم کی عمارت بنائی گئی ہے۔ اس کے لیے تمام اجزاء پہلے سے تیار تھے، دس ہزار بستر بھی، ہر بستر کے ساتھ تمام لوازمات بھی، لیبارٹری وغیرہ کی ضروریات بھی۔ بس جیسے ہی حکم ملا دیکھتے ہی دیکھتے تمام چیزیں جوڑ دی گئیں اور پہنچادی گئیں اور یوں دیکھتے دیکھتے اسپتال نہ صرف کھڑا ہوگیا بلکہ آپریشنل بھی۔ یہ سب اس لیے ممکن ہوسکا کہ معلوم تھا کہ اس کی تیاری پہلے سے تھی کہ کرنا کیا ہے۔
کرونا وائرس کے بارے میں پہلے بھی تحریر کرچکا ہوں کہ اس کی ہلاکت خیزی عام بیماریوں حتیٰ کہ فلو سے بھی انتہائی کم ہے اور اس سے اتنا خوفزدہ ہونے کی کوئی بات نہیں تھی مگر اس کے لیے ساری حکومتوں، ذرائع ابلاغ اور عالمی ادارہ صحت نے دیے گئے اسکرپٹ کے مطابق اپنا کردار خوب ادا کیا۔ اب یہ بات tested n verified ہے کہ پورے پورے ملکوں کو بغیر کسی فوج اور پولیس کے کس طرح سے لاک ڈاؤن کرنا ہے اور ضرورت پڑے تو کسی حیاتیاتی ہتھیار سے کس طرح ختم کرنا ہے۔ کسی بھی ملک میں کوئی وائرس لانچ کردیا جائے، اس کی سرحدیں سارے ہی ممالک از خود بند کردیں گے۔ اس کی تجارت ایک منٹ میں بند کردی جائے گی اور شہریوں کو لوگ خود مارنے پر آمادہ ہوجائیں گے کہ وہ اس کا شکار نہ ہوجائیں۔ اس کے نتائج تو توقع سے زیادہ حوصلہ افزا رہے کہ عوام خود ہی ایک دوسرے کے دشمن ہوگئے۔ کرونا کے خوف سے پاکستان نے اپنے باشندے اور طالب علم چین سے واپس نہیں بلائے، کروز شپ پر لوگ خشکی کی تلاش میں ایک ملک کی بندرگاہ سے دوسرے ملک کی بندرگاہ جاتے رہے مگر کسی نے انہیں اترنے کی اجازت نہیں دی، یوکرین میں وہاں کے باشندوں نے اپنے ہی شہر کے لوگوں کی بس پر صرف اس جرم میں پتھراؤ کردیا کہ انہیں چین سے یوکرین آنے کیوں دیا گیا۔ پوری دنیا میں چینیوں کو کرونا وائرس کا ماخذ سمجھ لیا گیا اور امریکا و یورپ میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا۔ نتائج زبردست ہیں، اب نیو ورلڈ آرڈر کے نفاذ کے لیے کرونا وائرس پارٹ ٹو کا انتظار کیجیے۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔