نئی اور پرانی نسل کے درمیان بڑھتی دوریاں

274

 دور حاضر کے سماجی اور معاشرتی مسائل میں جس مسئلے نے سب کو پریشان کر رکھا ہے وہ نئی اور پرانی نسل کے درمیان بڑھتی ہوئی دوریاں ہیں بظاہر سب ایک ساتھ ہی رہتے ہیں اور گھر کے تمام ہی معاملات میں ایک دوسرے کے ممد ومعاون بھی ہوتے ہیں اور یہ بھی شکایت کم ہی سننے کو ملے گی کہ اولاد خاص طور پر اولاد نرینہ گھر ہی سے لاتعلق ہوکر رہ گئی ہے ایسا بھی نہیں ہے کہ اولاد اپنی کمائی میں گھر والوں اور والدین کو نظر انداز کر رہی ہو کہیں احترام اور عزت کا بھی فقدان نظر نہیں آتا۔ دوسری طرف والدین بھی یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ انہوں نے اپنی اولاد کی تربیت میں حتی المقدور کوشش کی اور اولاد کی جانب سے اس کا مثبت جواب بھی سب کے سامنے ہوتا ہے۔ والدین کے علاوہ بہن بھائیوں میں بھی کوئی دوریاں محسوس نہیں ہوتیں بنظر غائر دیکھا جائے تو ایک فیملی یا خاندان اور پھر پورا معاشرہ یک جا اور متحد نظر آتا ہے پھر سوال یہ ہے کہ وہ کیا چیز ہے کہ جس نے والدین کی راتوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں اور وہ اولاد کی فکر میں گھلے جا رہے ہیں۔ ایک اندیشہ ہے جو ان کو ایک پل چَین نہیں لینے دے رہا۔ بس یہی وہ سوال ہے جو اس زمانے اور دور حاضر میں تمام سوالات میں نمبر ایک پر موجود ہے جس کا جائزہ لینا از حد ضروری ہے۔
ہماری ناقص رائے میں اس کی سب سے بڑی وجہ اولاد کو چار پانچ سال کی عمر میں نماز اور دینی اقدار اور تہذیب و تمیز کی رغبت دلانے میں کہیں کوتاہی نظر آتی ہے۔ جبکہ میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ یہی وہ عمر ہوتی ہے جب بچے کے ذہن میں کوئی بات گھر کرجائے تو وہ مرتے دم تک نہیں نکل سکتی ایک مغربی سائنسدان کا کہنا تھا کہ مجھے 3 سے 4 سال کی عمر کے بچے دے دو اور 8 یا 9 سال کی عمر میں واپس لے جائو اس دوران میں جو اس کی تربیت کروںگا اور جو کچھ سکھائوںگا شرط ہے کہ وہ مرتے دم تک اس سے باہر نہیں نکل سکے گا اور ربّ کائنات نے اپنے پیارے نبی کریمؐ کی زبانی ہم کو سمجھا دیا کہ اسی عمر سے بچے کو نماز کی ترغیب دو اور اگر 7 سال کی عمر تک وہ نماز نہیں پڑھتا تو اس پر سختی کرو۔ دیکھا گیا ہے کہ جو والدین بچے کو اسی عمر میں نماز کا پابند بنا دیتے ہیں پھر بچہ خود بڑے ہوکر مسجد کا رخ کرتا ہے اور اس کو یہ باور کرانے کی ضرورت نہیں رہتی کہ اذان ہو چکی ہے اب اس کو مسجد جا کر نماز پڑھنی ہے۔
اسی طرح اسلامی تہذیب کے خدوخال جن میں آداب مجلس بڑوں کا احترام سلام کرنے کی عادت، شکریہ ادا کرنے کی عادت اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کا حوصلہ اور چھوٹی چھوٹی دینی کتب کا گاہے گاہے مطالعہ بچے کی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، اس کے ساتھ اسلامی معاشرے کے خدوخال سے بچے کو روشناس کرانا اور جدی پشتی اچھی عادات کہاوتیں ضرب المثل اچھے اشعار بچے کے ذہن پر مثبت نقوش ابھار سکتے ہیں۔ دین سے قربت اور اسلامی تہذیب کے خدوخال ذہن نشین کرانے کے لیے صحابہ کرام کے بچپن جوانی اور ان کے کارناموں اور دیگر واقعات سے بچوں کو روشناس کرانا بھی اچھی تربیت میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے یہی نہیں ان سب کے لیے پہلے والدین کو خود دینی کتب تاریخ اسلام تاریخ خلفائے راشدین اور چنیدہ صحابہ کرام کے طرز زندگی کے مطالعے پر خود دسترس حاصل کرنا ہوگی تاکہ جب بھی بچوں کے ساتھ کھانے یا دیگر مواقع پر بیٹھک لگے تو موقع بموقع بچوں کو صحابہ کرام کے قصے سنائے جاتے رہیں بلکہ تاریخ اسلام کے جید کرداروں کو بھی اولاد کے گوش گزار کرایا جاتا رہے۔
نئی اور پرانی نسل کے درمیان دیوار دوریاں کھڑی کرنے میں ایک بڑی وجہ پروفیشنل تعلیم ہے جو نئی نسل یا اس سے پہلے کی نسل حاصل کر چکی ہے جس میں صرف اور صرف اپنی ذاتی زندگی بنانے پیسہ کمانے اور سرمایہ دار کا خزانہ بھرنے کے سوا اور کچھ نہیں سکھایا جاتا جب اس تعلیم میں ایک نو عمر طالب علم قدم رکھتا ہے تو وہ پچپن کی سکھائی ہوئی تہذیب اسلامی سے قریب تر کی تربیت کو کم و بیش بھلا چکا ہوتا ہے اور جن بچوں کو اتنی بھی تہذیب و تمیز نہیں سکھائی جا سکی اور ان کی تربیت سرے سے ہوئی ہی نہ ہو تو وہ معاشرے کے لیے اور خود اپنے گھر والوں کے لیے زہر ہلاہل سے کم ثابت نہیں ہوتے چونکہ انہوں نے جہاں آنکھ کھولی وہاں بس ایک ہی سبق پڑھایا جاتا رہا کہ یہ تمہاری زندگی ہے اس کو گزارنے کا طریقہ تم کو خود وضع کرنا ہے اور تم پر کسی کا کوئی حق نہیں، تمہاری کمائی بس تمہاری ذات تک محدود رہنی چاہیے، اس طرح کی ذہنیت جب پروان چڑھتی ہے تو انسان میں لامحالہ ایسے اوصاف خبیثہ پیدا ہو جاتے ہیں جو اسلامی معاشرتی اقدار سے یکسر متصادم ہوتے ہیں۔ جب سے دنیا میں صنعتی انقلاب پیدا ہوا وہ اوآخر اٹھارویں صدی سے پہلے پہل مغرب نے اس کا مشاہدہ کیا کہ صنعتی انقلاب نے ان کے معاشرے میں دراڑیں ڈالنا شروع کر دی ہیں اور پھر صنعتی ترقی کے ساتھ یہ دراڑیں اتنی بڑھ گئیں کہ ان کے خاندانی نظام کو ہی منہدم کردیا اور جس معاشے میں خاندان کی اکائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے تو پھر بھلا وہ معاشرہ کس طرح صحیح سلامت رہ سکتا ہے اور آج یورپ کا معاشرہ اپنی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے بعینہ مسلم معاشرے میں جب صنعتی انقلاب کے جراثیم پھیلنا شروع ہوئے تو اس معاشرے کے باسیوں نے پہلے پہل تو اس پر کچھ زیادہ توجہ ہی نہ دی بلکہ فخریہ انداز میں کہا جاتا رہا کہ بیٹا انجینئر بن گیا بیٹی ڈاکٹر بن گئی مگر یہ نہیں پتا تھا کہ انجینئر ڈاکٹر بننے کے دوران اس کی جو ذہن سازی ہو چکی ہے اس سے نبرد آزما کیسے ہوا جائے گا پہلے تو انجینئر اور ڈاکٹر تک ہی بات محدود تھی پھر فخریہ کہا جانے لگا کہ بیٹا یا بیٹی نے ایم بی اے کر لیا ہے آگے بڑھیے کہ اولاد نے چارٹرڈ اکائونٹنٹ کا کورس پاس کر لیا ہے، واضح رہے کہ یہ تمام ڈگریاں پروفیشنل یعنی ماہرین کی سند کہلاتی ہیں جن کا واحد مقصد جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ اپنی ذات تک محدود رہتے ہوئے یا دفتر میں سرمایہ دار یا کمپنی کے مفادات کے لیے سوچنے کے سوا کچھ نہیں سکھایا گیا۔
(جاری ہے)