نئی اور پرانی نسل کے درمیان بڑھتی دوریاں (آخری حصہ)

273

کسی کو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کی کس طرح مدد کی جائے، فیکٹری یا کارخانے میں غریب مزدور کے شب و روز کیسے گزر رہے ہیں۔ اس کے بچے کن حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں، صحت، تعلیم کی کتنی آسانیاں میسر ہیں چونکہ ان پروفیشنل ڈگریوں والی تعلیم میں ایسے کوئی مضامین پڑھائے ہی نہیں جاتے اس لیے یہ ڈگری یافتہ نوجوان ان احساس سے بلکہ عاری ہوتے ہیں اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس نے معاشرے کو دو طبقوں میں تقسیم کر دیا ہے جو بات زبان زد عام ہے کہ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ پروفیشنل تعلیم یافتہ افراد معاشرے کی ضرورتوں اور مجبوریوں کو سمجھنے سے یکسر عاری ہوتے ہیں۔
جہاں تعلیم کے عظیم فرق نے نسلوں میں دوریاں پیدا کی ہیں وہیں روز مرہ کی نت نئی ایجادات نے بھی ان دوریوں میں اضافہ کردیا ہے گزشتہ بیس سال میں جب سے سوشل میڈیا کا دور آیا ہے موبائل فون لیپ ٹاپ آئی پیڈ وغیرہ نے تو نئی پرانی نسل تو کیا نئی نسل کے درمیان بھی دوریاں پیدا کر دی ہیں ہر ایک کو بس اپنے موبائل، فون لیپ ٹاپ، آئی پیڈ سے چپکے رہنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ دنیا بھر میں ہزاروں تجزیے مشرق سے مغرب تک کیے جا رہے ہیں اور نئی نسل کی اس ’’مصروفیت‘‘ پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے اور حکمرانوں اور ذمے داروں، والدین، اساتذہ سب کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اس عفریت سے اپنے معاشرے کو بچائیں مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، کے مصداق اس معاشرتی کمزوری میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے بچوں کی صحت تعلیم اور دیگر صحت مند مصروفیات بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ اب تو کیفیت ایسی ہو گئی ہے کہ بچے خود ہی سے جدا ہورہے ہیں جب سے موبائل اور دیگر گیمز بچوں کو نظر آئے ہیں: بقول میر تقی میر
دکھائی دیے یوں کہ بے خود کیا
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے
ایک صدی پہلے کوئی مڈل پاس ہوتا تو محلے پڑوس میں پڑھا لکھا مانا جاتا جوں جوں معاشرے میں تعلیم عام ہوتی گئی تو میٹرک، انٹر، بی اے، ایم اے تک تعلیم یافتہ افراد پڑھے لکھے شمار کیے جانے لگے لیکن اس تعلیم کا سب سے بڑا حسن یہ ہوتا تھا کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ طالب علم کو اخلاق آداب تہذیب شائستگی خدمت گزاری رحم دلی ایثار اور دیگر اعلیٰ خصائص سکھائے جاتے تھے تاکہ یہ طالب علم جب عملی زندگی میں قدم رکھے یا کہیں بھی جائے تو یہ ایک کامیاب اور معاشرے کے لیے مفید شخصیت کے ساتھ پہچانا جائے مگر پروفیشنل تعلیم میں ایسی کوئی تربیت شامل نہیں ہوتی ان دوباتوں کو سمجھنے کے لیے صرف اتنی بات سمجھ لیں کہ پہلے کا پڑھا لکھا شخص رشوت ستانی کو گناہ کبیرہ سمجھتا تھا نہ خود اس گناہ کا ارتکاب کرتا اور نہ کسی کو ایسا کرنے دیتا اور وائٹ کالر کرائم کی اصطلاح نکلی ہی پروفیشنل تعلیم کے عام ہونے سے اب چونکہ پروفیشنل تعلیم میں اخلاقیات، خدا ترسی، خدا خوفی اور کسی بھی قسم کی اچھی بات نہیں سکھائی جاتی اس لیے اس طرح کی ڈگری کا حامل شخص ایک خود غرض، انا پرست، خدا ترسی اور خدا خوفی سے یکسر نابلد صرف پیسہ اور صرف پیسہ کمانے کی دھن میں ہر قسم کے جرائم کو اپنے لیے جائز سمجھتا ہے۔ آج عدالتیں وہائٹ کالر کرائم کے مقدمات سے اتنی بھر چکی ہیں کہ ان کیسز کو رکھنے کے لیے عدالتوں میں جگہ نہیں ہے۔
یہ بات بھی غور طلب ہے کیا وجہ ہے کہ عام نظام تعلیم کو یکسر آناً فاناً پروفیشنل تعلیم سے بدل دیا گیا اور نان پروفیشنل ڈگریز کو ردی کی ٹوکری کا ہی سزاوار بنادیا گیا حالانکہ میٹرک، بی اے، ایم اے یہاں تک کے ایم ایس سی کا ڈگری حاصل شخص بھی اچھی انگریزی اردو اور اخلاقیات سے واقف کام کرنے کی صلاحیتوں سے آراستہ ہوتا ہے مگر اس کو تو نوکری کے لیے اپلائی کرنے کا بھی حقدار نہیں سمجھا جاتا۔ کیا یہ ایک سوچی سمجھی سازش نہیں کہ اس علم کا حامل کوئی شخص کسی سرکاری عہدے پر براجمان نہ ہوجائے جس کی تعلیم میں تربیت کا عنصر شامل ہو چکا ہومبادہ وہ کرپشن کی بہتی گنگا کہ آگے بند باندھنا شروع کردے اس لیے صرف اور صرف پروفیشنل تعلیم یافتہ شخص ہی کسی اعلیٰ عہدے کا حقدار ٹھیرایا جاتا ہے تاکہ کرپشن کی بہتی گنگا میں سب بآسانی ہاتھ دھوتے رہیں۔