کورونا کے مثبت اثرات

388

پاکستان میں شادی کا تصور آتے ہی ڈھول بینڈ باجے جگ مگ کرتی روشنیاں مزے مزے کے کھانے اور خوبصورت قیمتی لباس کا دھیان آتا ہے۔ یہ سب کچھ ہر طبقے کے لوگ انتہائی ضروری سمجھتے ہیں اور اپنے اپنے انداز اور بجٹ کو دیکھ کر طے کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اکثریت اپنے بجٹ اور چادر سے باہر نکل جاتی ہے اور برسوں چادر کے اندر آنے کے لیے یعنی قرض کو اُتارنے میں شادی کے بعد فکر اور پریشانی میں گزارتے ہیں۔ ماں باپ اپنے بچوں کی شادی کے لیے برسوں منصوبہ بندی کے ساتھ بچت کرتے ہیں کچھ بڑی مشکل سے اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے میں کامیاب ہوتے اور کچھ شادیوں پر ایسے خرچ کرتے ہیں کہ جیسے اُن کے لیے پیسہ درختوں پر لگتا ہے۔ بارات میں ڈالر اور موبائل فون کے پیک ڈبے نچھاور کرنے کی ویڈیوز تو ٹی وی پر بھی دکھائی گئی تھیں۔ رسم اور رواج کی اقسام اللہ معاف کرے اور اُن کی پاسداری زندگی موت کا مسئلہ۔ خاندان کی ناک کی حفاظت، اسے کٹنے سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا کیا جتن نہیں کیے جاتے۔ بغیر اس بات پر توجہ دیے کہ ان اخراجات کی اجازت جیب نہیں دیتی اور قرضے کی بھاری رقوم واپس بھی کرنی ہے وہ بھی مع سود۔ لیکن کچھ دولہا دولہن اس معاملے میں متضاد رائے رکھتے ہیں جیسا کہ ایک یورپین جوڑے نے طے کیا تھا کہ وہ دونوں ایک مقررہ رقم سے زیادہ اپنی شادی پر خرچ نہیں کریں گے لیکن دولہن نے آن لائن ایک انتہائی مہنگا شادی کا جوڑا آرڈر کردیا جو اس کو بے انتہا پسند آیا تھا۔ دولہا نے اس بات پر مذاق کیا تو دولہن نے شادی ہی سے انکار کردیا۔ دولہا کا کہنا تھا کہ بات پیسوں کی نہیں بلکہ اصول اور سادگی کی تھی جو انہوں نے طے کیا تھا۔
انگلینڈ کے علاقے والسال کے ایک جوڑے نے کورونا وائرس کی وجہ سے اپنی شادی سادگی سے کی، حالاں کہ وہ ایک زبردست اور انوکھے انداز کی شادی کرنے کے لیے اٹھارہ ماہ سے منصوبہ بندی کررہے تھے جو انہیں اپریل میں کرنی تھی۔ لیکن کورونا کے باعث انہوں نے اپنی شادی کی اصل تاریخ میں خطرات محسوس کرکے پہلے ہی ازدواجی بندھن میں بندھ گئے۔ پاکستان میں بھی ایسے واقعات ہوئے خاص طور سے وہ لوگ جن کی شادیاں ہالوں کی بندش کے باعث پریشان کن رہیں، اسلام آباد کے ایک رہائشی کے بیٹے شادی کے لیے آسٹریلیا سے آئے تھے انہوں نے بھی اپنی شادی سادگی کے ساتھ کرلی، حالاں کہ انہوں نے اس سلسلے میں خاصی منصوبہ بندی کی ہوئی تھی۔ یعنی کورونا کا ایک مثبت نتیجہ تو یہ تھا کہ شادیاں سادگی سے ہونے لگیں یعنی بقول انور شعور:
جس قدر دھوم دھام تھی پہلے
سب کورونا نے ختم کروا دی
کردیے جائیں سادگی سے نکاح
تاکہ شادی کی رسم ہو سادی
کورونا کے بعد شادیوں کے سلسلے میں اس کے اثرات قائم رہیں تو اچھا ہے ورنہ پہلے کی طرح رات گیارہ بجے شادیوں میں پہنچنے اور ڈیڑھ دو بجے واپسی کی روایت زندہ نہ ہوجائے۔ سوچیے وہ لوگ جن کے پاس اپنی ٹرانسپورٹ نہیں ہوتی وہ کس مشکل اور پریشانی سے اپنے گھروں میں پہنچتے تھے۔ قانون تو بنایا گیا تھا کہ گیارہ بجے شادی ہال بند کردیے جائیں گے اور کھانے میں بھی ون ڈش کی سفارش تھی لیکن یہ سب نافذ ہو تو بات ہے۔ شادیوں پر دیگر لوازمات کو دیکھا جائے تو معاملہ حیران کن حد پر پہنچا ہوا ہوتا ہے۔ دو تقریبات کا لباس سونے کے مول خرید و فروخت ہوتا ہے، بیچنے والے تو خیر بیچیں گے لیکن خریدنے والے کیسے خرید لیتے ہیں۔ اور پھر ایک دفع پہن کر انہیں ڈبوں اور ململ کے کپڑوں میں لپیٹ کر الماری کے نچلے خانوں میں ڈال دیتے ہیں۔ گویا لاکھوں کی گڈیاں سینت دی گئی ہوں۔
ان ہی رقوم سے مستحق خاندانوں کی بیٹیاں رخصت کی جاسکتی ہیں۔ یعنی ایک مال دار فرد اوسط درجے کی شادی کرکے اپنے ساتھ کئی غریب بچیوں کی شادی کا فریضہ ادا کرسکتا ہے۔ کئی غریب ماں باپ کی دعائیں حاصل کرسکتا ہے، اپنے لیے برکت اور رحمت کے در کھول سکتا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ آج کی دنیا کی آدھی دولت ایک فی صد لوگوں کے پاس آگئی ہے۔ یہ دنیا کے امیر ترین لوگ ہیں جو ’’ٹرینڈ سیٹر‘‘ کہلاتے ہیں اور کم امیر لوگ ان کی پیروی میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہ چین بتدریج نیچے تک چلتی جاتی ہے۔ حیران ہونے سے کوئی اپنے آپ کو روک نہیں سکتا جب وہ یہ پڑھتا ہے کہ امیر ترین بل گیٹس اپنی کمپنی مائیکروسافٹ سے استعفا دینے کا اعلان کرتے ہیں تاکہ خیراتی کاموں کے لیے زیادہ وقت نکال سکیں، دوسری طرف عراق جیسا مال دار ملک امریکی حملے کے باعث عالمی بینک کے 2014ء کے اعداد و شمار کے مطابق اس حد تک غربت کا شکار ہوگیا کہ کل آبادی کا تقریباً 22.5 فی صد یعنی 3 کروڑ افراد انتہائی غربت کا شکار ہوئے، یہاں تک کہ خاندان کے لوگ اپنے جسمانی اعضا فروخت کرنے کے لیے تیار ہوگئے اور امریکا کے یہ بااثر ارب پتی اور خیر کا کام کرنے والے امریکا کو یعنی اپنے ملک کو اس معاملے میں کچھ بھی کہنے کی ہمت نہ کرسکے۔ یاد رہے کہ 2018ء میں اِن کو دُنیا کا سب سے زیادہ سخی اور خیر کا کام کرنے والا قرار دیا گیا تھا اس معاملے میں اُن کے ہم پلہ ایمیزون کے جیف بیزوس ہی تھے جو دنیا میں ہونے والی انتہائی ناانصافیوں اور غیر انسانی حملوں پر چپ سادھے رہے۔