جہاں صحت و صفائی عروج پر وہیں کورونا عروج پر

647

اسلام میں صفائی کا مطلب طہارت اختیار کرنے کے ہیں لیکن بچپن سے یہی پڑھایا سکھایا جا رہا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے مگر صفائی کی تعریف کیا ہے یہ تو کوئی بتانے کو تیار نہیں بلکہ مغرب کی صفائی کی تعریفوں کے ایسے پل باندھے جاتے ہیں جیسے صفائی صرف مغرب والے ہی جانتے ہیں لیکن دینی کتابوں اور دینی مدرسوں میں پڑھنے والے اس کو طہارت سے تعبیر کرتے ہیں اب ایک بابو ٹائپ شخص ان دونوں کے بیچ میں الجھ کر رہ جاتا ہے کہ صفائی اس کو کہتے ہیں جو مغرب میں پائی جاتی ہے یا صفائی اس کو کہتے ہیں جو مدرسوں میں سکھائی جاتی ہے۔ اس گتھی کو سلجھانے کے لیے ہم کو دینی کتب احادیث اور قرآن کریم کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ صفائی اختیار کرو کیونکہ صفائی نصف ایمان ہے قرآن کریم فرماتا ہے کہ اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو وضو کرو اور وضو کا طریقہ بھی قرآن ہم کو سکھا دیتا ہے کہ ایسے وضو کرو کہ ہر وہ عضو جو کسی جراثیمی حملے کا شکار ہو سکتا ہے اس کو ضرور پانی سے دھو لو۔ مگر مغرب یہ سکھاتا ہے کہ صفائی کا مطلب اچھے اجلے کپڑے پہن لو گھر کو ڈسٹ فری کرلو دفتر کو خاک آلود نہ ہونے دو اور بس یہ ہوگئی مغرب کی صفائی۔ مگر اسلام صفائی یعنی طہارت کی وہ شکل ہمارے سامنے رکھتا ہے جس سے ہم ظاہری و باطنی طور پر جراثیم سے پاک ہونے کو یقینی بناتے ہیں۔ یعنی اسلام پہلے تو اس بات پر زور دیتا ہے کہ آپ کوشش کریں کہ ہمہ وقت باوضو رہیں جب آپ ہمہ وقت باوضو رہنے کو اپنا وتیرہ اور عادت بنا لیں گے تو لا محالہ بیت الخلا سے نکلتے ہیں تو وضو کریںگے جب غسل جنابت کی ضرورت ہوگی تو یقینا غسل کا وہی طریقہ اپنائیںگے جو اسلامی شریعت نے ہم کو سکھایا ہے کہ تین بار کلی کرنا ہے تین بار ناک میں پانی اچھی طرح ڈالنا ہے پھر پورے جسم کو تین بار اچھی طرح پانی بہا کر دھونا ہے۔ اسی کو طہارت کہتے ہیں یہ بات شاید اکثر لوگوں کو نہیں معلوم ہوگی کہ اسلام کے سوا بہت سے مذاہب کی ڈکشنریوں اور ان کے مذہبی طور طریقوں میں طہارت نہیں پائی جاتی بلکہ اکثر ادیان کے لوگ بشمول مغربی ممالک اس لفظ ہی سے ناآشنا ہیں۔ اسلام نے جس طرح طہارت اور صفائی کا پورا درس دیا ہے اسی طرح غذا بھی اللہ تبارک تعالیٰ کی منشا اور احکامات کے مطابق رکھنے کا حکم دیا ہے۔ کون سا جانور کھایا جا سکتا ہے اور کون سا نہیں کھایا جاسکتا اور جو کھایا بھی جا سکتا ہے اس کو کس طرح ذبح کیا جائے کہ وہ حلال تصور ہو ورنہ وہ جانور بھی حرام ہی تصور ہوگا۔ مشرق و مغرب میں ہر قسم کا جانور کھا لیا جاتا ہے۔ یہ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کائنات اور انسان اور چرند پرند زمین آسمان اور جو جو کچھ زمین و آسمان کے بیچ اور جو اس کے اندر ہے سب کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اب اتنی بات تو سب کی سمجھ میں آسکتی ہے کہ جب کوئی موجد کوئی چیز ایجاد کرتا ہے تو اس کے لیے پورا طریقہ کار بھی وضع کرتا ہے تاکہ اس کی تخلیق کو کوئی نقصان نہ پہنچے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو تخلیق کیا اور یہ بتا دیا کہ وہ اپنے جسم کو تندرست و توانا اور ہر قسم کے جراثیموں سے کس طرح بچا سکتا ہے۔ جس چیز اور جس جانور کو کھانے سے ربّ نے منع کردیا یقینی طور پر اس میں کوئی ایسی چیز ہوگی جو انسان کے لیے نقصان دہ ہوگی اور رفتہ رفتہ سائنس ان باتوں کی طرف آ رہی ہے کہ کس چیز کے کھانے سے انسان کی جسمانی اور روحانی قوتیں مجروح ہوتی ہیں یہ تو ہو سکتا ہے کہ کوئی چیز بھی کھاکر انسان فوری طور پر مر نہیں جاتا مگر نسل در نسل جینز کے تبادلے سے بالآخر آنے والی نسلوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ آج جو وبا ہمارے سامنے پھیلی ہوئی ہے صدیوں سے ایسا ہی ہوتا چلا آ رہا ہے اور معلومات کے مطابق قریب کی صدیوں میں جن جراثیمی وبائوں نے انسانوں کو آ لیا تھا ان کا شکار بھی اکثر وہی ممالک تھے جہاں وہ سب کچھ کھایا جاتا تھا جو اللہ ربّ العزت نے انسان کو کھانے سے منع کیا ہے مگر انسان اپنی شامت اعمال کی وجہ سے ربّ کی سننے کے بجائے اپنی کرنے پر اکڑتا رہتا ہے۔ یورپ کے تاریخ داں خود بتا رہے ہیں کہ انیسویں صدی میں آنے والے وبائی امراض میں اتنے کروڑ انسان لقمہ اجل بنے جتنے کہ جنگ عظیم میں نہیں بنے تھے۔ اسلام نے جو جانور حلال قرار دیے ہیں ان کو ذبح کرنے کا ایسا طریقہ بتایا ہے کہ سائنس آج تک اس پر نہ صرف حیران ہے بلکہ اس پر تحقیق کرنے پر مجبور ہے جب جانور کو ذبح کیا جاتا ہے تو اس کا سارا خون جسم سے باہر نکل آتا ہے اور اس کو کچھ دیر تڑپنے اس لیے بھی دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے جسم کا سارا خون باہر نکال دے اس طرح اس جانور کا گوشت خون سے پاک ہو جاتا ہے اور خون کے مضر اثرات سے انسان محفوظ ہو جاتا ہے اور جو جانور حرام قرار دیے گئے ہیں وہ تو کلی طور پر ہی انسانوں کے لیے نقصان کا باعث ہوتے ہیں مغرب اور مشرق میں جانور کو جس طرح ہلاک کرکے کھایا جاتا ہے اس کا خون اس کے گوشت کے ساتھ انسان کے جسم میں داخل ہو جاتا ہے جو جسم میں متعدد بیماریوں اور قوت مدافعت کو کمزور کرنے کا باعث بنتا ہے۔ کورونا کے پھیلائو کا سب سے بڑا سبب بھی یہی بتایا جا رہا ہے کہ یہ قوت مدافعت کی کمزوری کے سبب زیادہ تیزی کے ساتھ پھیلتا ہے اب سائنس اس پر تجربہ کرے کہ کون کون سی اشیاء اور جانور ہیں جن کے کھانے سے انسان میں قوت مدافعت کم ہوجاتی ہے اور جانور کا خون انسان کے جسم کے لیے کتنا نقصان دہ ہوتا ہے۔ ہم کو جو دن رات ایک ہی طریقہ توتے کی طرح سکھایا جا رہا ہے کہ بار بار ہاتھ دھوئے جائیں منہ صاف رکھیں ماسک لگائیں ڈیٹول اور دیگر سینیٹائزرز کا استعمال کریں ایک دوسرے سے دور رہیں مصافحہ و معانقہ نہ کریں ان سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا امریکا و یورپ کے ممالک اتنے غریب ہوگئے ہیں کہ وہاں صابن اور سینیٹائزر دستیاب نہیں ہیں ایسا ہرگز نہیں ہے جو وائرس وارد ہوچکا ہے وہ ہر اس شخص کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا جس کی قوت مدافعت کمزور ہوگی اور مغرب اور مشرق میں خدا کی منع کی ہوئی چیزیں کھا کھا کر وہاں کے لوگوں نے اپنی قوت مدافعت پہلے ہی کمزور کر لی ہے اس لیے اب وہاں نہ کو سینیٹائزر کام کر رہا ہے نہ صابن نہ سوشل ڈسٹنسنگ جو ہو چکا تھا وہ ہو چکا اب تو ان کو اس وبا کا شکار ہونا ہی ہے چہ جائیکہ ان میں سے کچھ لوگ فوری طور پر اپنی قوت مدافعت کو اس حد تک بڑھا لیں جہاں یہ وائرس حملہ آور ہوبھی تو خود ہی مر جائے۔
قرآن کریم میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ لطیف و خبیر ہے وہ باریک سے باریک شہہ جاندار و بے جان سب کا علم رکھتا ہے ہر وائرس جاندار ہوتا ہے اور خدا کے حکم کا تابع فرمان ہوتا ہے، اس لیے بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ اس جرثومے کو اللہ جو حکم دے گا وہ اتنا ہی کام کرے گا۔ اب خبر یہ آئی ہے کہ پاکستان میں کورونا نے اپنی ہیت و ماحیت تبدیل کر لی ہے جو کسی حد تک خوش آئند ہے اس لیے دستیاب آلات اور معلوم علم کے مطابق احتیاط کرنی لازمی ہے مگر ہم کو اللہ پر بھروسا رکھنا چاہیے اور اسی سے رجوع کرنا چاہیے کہ وہ اس آفت ناگہانی سے ہر مسلمان کو محفوظ رکھے۔
صفائی اور طہارت کے بیچ جو خلا ہے اس کو سوائے مسلمان کے اور کوئی نہیں سمجھ سکتا کیونکہ اسلام کے سوا کسی اور دین میں طہارت کا کوئی درس نہیں دیا گیا جبکہ اسلام میں طہارت پورے ایک باب کی شکل میں موجود ہے کہ اس باب سے نکلے بغیر کوئی عبادت عبادت نہیں رہتی تو اس کے اللہ کے حضور قبول ہونا تو دور کی بات ہے ہمارے یہاں جب بچی جوان ہونے لگتی ہے تو اس کو بہشتی زیور جیسی کتاب جو صرف طہارت نسواں پر لکھی گئی ہے، پڑھائی جاتی ہے کیا کسی اور مذہب میں طہارت پر اتنی زخیم کتاب موجود ہے۔ جہاں طہارت کا تصور ہی موجود نہ ہو تو وہاں کتاب تو کجا طہارت پر چند مضامین تلاش کرنا بھی مشکل ہے۔
آج یقینا مغرب کے مفکرین اس بات پر بھی تحقیقات کر رہے ہوںگے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ مسلمان اس شدید قسم کے وائرس سے بہت حد تک محفوظ ہیں اور ان کی قوت مدافعت ساری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لی۔ یورپ کے صرف محقق ہی نہیں عام باشندہ بھی ان اکابرین سے سوال کر سکتا ہے کہ مسلمانوں کے کورونا وائرس سے محفوظ رہنے کی آخر کون سی بنیادی وجوہ ہیں جبکہ ان کا رہن سہن کھانا پینا اور دیگر معاملا ت یورپ کی نسبت 20 فی صد بھی نہیں پھر وہ اسلام کا مطالعہ کرنا شروع کر دیںگے۔