کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے مشکلات کا شکار پاکستانی شہری دن گن رہے ہیں کہ کب اس وبا سے جان چھوٹے گی اور زندگی بحال ہوگی۔یہی وجہ ہے کہ ہر امید افزا خبر اور ریسرچ اسٹڈی کو سوشل میڈیا پر بہت پذیرائی ملتی ہے۔
امید افزا خبروں میں سے ایک سنگاپور یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی اینڈ ڈیزائن کی ڈیٹا لیب کی پیش گوئی ہے جس کے مطابق پاکستان میں جون میں کورونا وائرس 99 فیصد تک ختم ہو جائے گا۔
یونیورسٹی کی ڈیٹا لیب نے دنیا کے مختلف ممالک سے کورونا کے مریضوں کے اعداد و شمار،لاک ڈاؤن اور حکومتی اقدامات کا جائزہ لینے کے بعد ان میں کورونا کے خاتمے کی تاریخ جاننے کی کوشش کی اور اس مقصد کے لیے ایک ویب سائٹ لانچ کی ہے۔
( https://ddi.sutd.edu.sg/when-will-covid-19-end/)
جسے دنیا بھر میں پذیرائی مل رہی ہے۔ویب سائٹ کے منگل کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 14 جون تک کورونا 97 فیصد تک ختم ہو جائے گا جبکہ 28 جون تک 99 فیصد کیسز ختم ہو جائیں گے۔
واضح رہے کہ یہ سائٹ روزانہ کی بنیاد پر اپنی پیش گوئی کو نئے ڈیٹا اور حکومتی اقدامات کی روشنی میں اپ ڈیٹ کرتی ہے۔
سنگاپور یونیورسٹی کی امید افزا تحقیق کے مقابلے میں پاکستان کی قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی کے دو پروفیسرز کی بھی ایک تحقیق سامنے آئی ہے جو زیادہ امید افزا نہیں ہے۔
ایسے میں لوگ کس تحقیق پر کس بنیاد پر یقین کریں اس حوالے سےیونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم کے مطابق سنگاپور یونیورسٹی کی تحقیق امید افزا ہے مگر اس کی بنیاد دستیاب اعداد و شمار پر ہے۔
پاکستان نے اپنی آبادی کے ایک فیصد افراد کے بھی کورونا ٹیسٹ نہیں کیے جو کہ تقریباً بائیس لاکھ بنتے ہیں،ایسے میں کورونا کے حوالے سے کوئی بھی پروجیکشن یا مستقبل کی پیش بینی درست شمار نہیں کی جا سکتی ہے۔
ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا ہے کہ جب تک پاکستان میں ٹیسٹنگ کی تعداد نہیں بڑھائی جاتی کسی طرح کی تحقیق پر بھروسہ کرنا مناسب نہیں ہوگا۔
امریکہ کی ییل یونیورسٹی میں متعدی امراض میں ماسٹرز کرنے والے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ کے سابق سربراہ ڈاکٹر سعید اختر کے مطابق ‘قائداعظم یونیورسٹی اور سنگاپور یونیورسٹی دونوں کی تحقیق میں ایس آئی آر ماڈل کا استعمال کیا گیا ہے۔
میری ذاتی رائے میں صورت حال نہ اتنی خراب ہے جتنی قائداعظم یونیورسٹی کے پیپر میں دکھائی گئی ہے اور نہ ہی اتنی اچھی جتنی سنگاپور یونیورسٹی کی رپورٹ میں سامنے لائی گئی ہے۔
حقیقت درمیان میں کہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تحقیق کا یہ ماڈل ماضی میں کچھ کامیابیوں اور کچھ ناکامیوں کے ساتھ استعمال کیا گیا مگر کورونا وائرس کے کیس میں اتنے ساری عوامل تبدیل ہوتے رہتے ہیں کہ اس ماڈل کی بنیاد پر درست پیش گوئی کرنا بہت مشکل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تحقیق کے دوران چیلنج یہ ہے کہ زمینی حقائق لمحہ بہ لمحہ بدلتے ہیں،لاک ڈاؤن پر کتنا عمل ہو رہا ہے، لوگ کتنی احتیاطی تدابیر اختیار کر رہے ہیں اور اعداد و شمار کتنے درست سامنے آ رہے ہیں،ان سب سوالوں کے جواب مستقبل کی درست پیش گوئی کے لیے بہت اہم ہیں۔
ڈاکٹر سعید اختر کا خیال ہے کہ پاکستان میں مرض کی شدت بہت کم رپورٹ ہوئی ہے اور کورونا کے مریضوں کی جو تعداد بتائی گئی ہے اصل تعداد اس سے یقینی طور پر زیادہ ہے۔اس کی وجہ ٹیسٹنگ نہ ہونا اور دیہی اور دور دراز کے علاقوں میں مانیٹرنگ کا موثر نظام نہ ہونا ہے۔
وفات پانے والے کئی افراد کا کورونا ٹیسٹ کیا جانا چاہیے تاکہ مرض کے پھیلنے کا درست اندازہ لگایا جا سکے،تاہم حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت ملک میں زندہ افراد کے لیے بھی کافی ٹیسٹ نہیں ہو پا رہے ہیں۔
ڈاکٹر سعید اختر کا کہنا ہے کہ حکومت کو فیصلہ سازی کرتے وقت گومگو سے نکل کر موثر لاک ڈاؤن کی طرف جانا ہوگا تب ہی مرض پر قابو پانے کا کوئی راستہ نکلے گا۔
جرمنی کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جرمن چانسلر اینجیلا مرکل ایک سائنس دان ہیں،انہوں نے کورونا کی آمد کے فوراً بعد ٹیسٹنگ،لاک ڈاؤن اور دیگر اقدامات اس تیزی سے کیے کہ مریضوں کی تعداد زیادہ ہونے کے باوجود ہلاکتیں کم ہوئیں۔
ٹیسٹ زیادہ کرنے کی وجہ سے جرمنی مریضوں کی جلد شناخت میں کامیاب ہوا اور پھر ان مریضوں کو بزرگوں اور دیگر کمزور افراد سے دور رکھ کر شرح اموات کو کم کیا گیا۔
ڈاکٹر سعید اختر کے مطابق وفاقی حکومت کی پالیسی ماہرین صحت کو بنانی چاہیے اور ڈاکٹرز کی بات کو سنا جانا چاہیے۔