ارطغرل کا کاری وار

700

ارطغرل ڈرامے میں وہ کیا بات ہے کہ جس کے باعث دنیا میں اس کی دھوم مچی ہوئی ہے؟ ملکوں کے ملک دیوانے ہوگئے ہیں۔ دوسری طرف کچھ حکومتیں لرزہ براندم ہیں، خوف میں مبتلا ہیں، پابندی لگائی جارہی ہے، بیانات میں فتویٰ تک آگیا ہے، حالاں کہ نہ اس میں ہوش ربا گانے اور رقص ہیں اور نہ آئٹم نمبر۔ ’’ریاض منشی‘‘ ٹی آر ٹی کے ڈیجیٹل ترکش ریڈیو اور ٹی وی کے ڈائریکٹر ہیں کہتے ہیں ’’دنیا میں تو جیسے ارطغرل کی دھوم مچ گئی ہے۔ اہم شخصیات ارطغرل کے ساتھ سیلفیز پوسٹ کررہے ہیں۔ اداکاروں سے ملنے سیٹ پر آرہے ہیں۔ دوسرے ممالک تو چھوڑیں برطانیہ اور جنوبی افریقا میں ارطغرل کیفے کھل رہے ہیں یہاں تک کہ سیاح ارطغرل ٹور لینے کے لیے ترکی آنے لگے ہیں۔ عالمی سطح پر اس کو پانچ سو ارب مرتبہ دیکھ جاچکا ہے۔ لوگ اپنے گھروں اور دکانوں میں کائی (اصل میں اس قبیلے کا نام قائی ہے) کے پرچم لگا رہے ہیں نوجوان سروں پر ارطغرل کی ٹوپی اور اس کی انگوٹھی پہن رہے ہیں، ڈی پی پر سپرمین اور بیٹ مین کے بجائے اس کی تصویریں لگ رہی ہیں۔ سچ یہ ہے کہ اس ڈرامے نے ایک ایسا عالمی قبیلہ تشکیل کرلیا ہے جس کے کرداروں میں لوگ خود کو اور آج کے سیاسی دائو پیچ کو دیکھنے اور سمجھنے لگے ہیں۔ حقیقت ہے کہ اس ڈرامے کا ثقافتی اثر بے پناہ ہے۔ پاکستان میں جب ایسے پی ٹی وی پر اردو ترجمہ کے ساتھ نشر کیا جان لگا ہے تو سیاسی طور پر چند لوگوں نے اعتراض کیا کہ ہمیں مقامی تاریخ اور ٹیلنٹ کو فروغ دینا چاہیے۔ ایک لحاظ سے یہ بات مناسب سمجھی جائے تو اس کی ذمے داری ٹی وی چینلز خصوصاً پی ٹی وی پر پڑتی ہے۔ کیا ہمارے پاس تاریخ کی ایسی کہانیاں موجود نہیں ہیں؟ سچ یہ ہے کہ 90ء کے بعد سے پی ٹی وی کوئی ایسا ڈراما بنانے میں کامیاب نہیں ہوا جو عوامی امنگوں کا
ترجمان ہو۔ محمد بن قاسم، محمود غزنوی، شہاب الدین غوری، قطب الدین ایبک، شمس الدین التمش، ناصر الدین محمود، رضیہ سلطانہ، غیاث الدین بلبن، جلال الدین سے علا الدین خلجی تک، غیاث
الدین تغلق پھر بابر اور شیر شاہ سوری سے لے کر اورنگ زیب عالم گیر… انگریز سامراجیت کے خلاف لڑنے والے سراج الدولہ، حیدر علی، ٹیپو سلطان، سید احمد دہلوی وغیرہ یہ تو ایک سرسری عنوان ہیں۔ باقاعدہ لکھا جائے تو بے شمار عنوانات ہیں اور بے شمار واقعات۔ بات تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں ان پر توجہ دی جائے تو حقیقت میں ثقافتی اثرات کی وسعت سرحدیں عبور کرجائیں گی۔ ہمارے پڑوسی ملک دہلی کے سلطان علا الدین خلجی کی کردار کشی پر مبنی فلم بناتے ہیں، اعتراض مسلمانوں کو ہونا چاہیے تھا اور اعتراض ہندو کرتے ہیں کہ (نام نہاد اور خیالی) رانی پدماوتی کی غلط تصویر پیش کی گئی۔ حالاں کہ تمام مورخین کے مطابق اس دور کی تمام دستاویزات اور تاریخ میں کہیں پدماوتی کا ذکر نہیں ملتا۔ یہ کردار سولہویں صدی کے ایک شاعر نے ڈھائی سو سال بعد اپنی کہانی میں لکھا جو محض ایک کہانی تھی اور تاریخ سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا۔ اور پھر یہ کہانی لکھی بھی علا الدین خلجی کے ڈھائی سو سال بعد۔ اس پر ہندو معترض ہیں کہ ایک راجپوت رانی مسلمان بادشاہ کے ساتھ تعلق پر کیسے آمادہ ہوسکتی ہے۔ حالاں کہ
تاریخ ہندوستان اس طرح کہ حقیقی رشتوں سے بھری پڑی ہے کہ ہندو راجائوں نے اپنی بیٹیاں خود مسلمان بادشاہوں کے ہاں مقرب بننے اور رشتے داری کے لیے استعمال کیں۔ خیر بات ہورہی تھی ارطغرل کی۔ اس کی سب سے اہم بات جس پر لبرل مسلمان حکومتیں اور غیر مسلم حکمران دونوں فکر مند ہیں وہ یہ کہ یہاں مسلم معاشرت کو دکھایا گیا۔ اسلام کے کسی شرعی حکم کی خلاف ورزی سے اجتناب کیا گیا ہے جذبہ جہاد، مظلوم کا ساتھ دینا خواہ ساری دنیا ظالم کا ساتھ دے۔ امن اور انسانیت اور اسلام کی شوکت کو اجاگر کیا گیا۔ اللہ پر یقین اور توکل اور عشق رسول ہی ایک مسلمان کا سرمایہ قرار دیا گیا ہے۔ مجاہدین اسلام کی بہادری کامیابی اور کامرانی کی داستان بیان کی گئی ہے۔ اسلام کے خلاف یہود و نصاریٰ کی سازشوں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ یہ بھی بڑی اہم بات ہے کہ پاکستان میں مفتیان کرام نے اس سیریز کو دیکھنا شرعاً جائز قرار دے دیا ہے۔ لہٰذا دین دار خاندان اپنے بچوں کو اس سیریز کو دکھانے کا اہتمام کرسکتے ہیں۔ اس سیریز میں مسلمانوں کے کردار اور اخلاقی بلندی سے متاثر ہو کر لوگ اسلام قبول کررہے ہیں، حال ہی میں لاس اینجلس میں ایک عیسائی جوڑے نے اسلام قبول کیا۔ امریکن مسلم سوسائٹی کے زیر اہتمام ایک پروگرام میں انہوں نے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا۔ سوچیے یہ ایک ڈرامے میں اسلامی معاشرے کے اظہار کے اثرات ہیں۔ اگر واقعی دنیا میں حقیقی معنوں میں اسلامی ریاست کہیں بنائی جاسکی تو اس کے دنیا پر کیا اثرات ہوں گے؟۔ یہی وہ وجہ ہے جس کے باعث اندرون ملک ہوں یا بیرون ملک لبرلز پریشان ہیں لیکن وہ اطمینان رکھیں ڈرامے دیکھنے اور دکھانے سے مدینے جیسی اسلامی ریاست نہیں بنے گی۔ ہاں اس کے لیے کائی (قائی) قبیلے جیسی جانفشانی ہمت اور بہادری پیدا کرنا ہوگی۔ ادھر ہمارے وزیراعظم کشمیر کے سلسلے میں مودی کے سارے اقدامات کا جواب مساجد کے باہر کچھ دیر کا مظاہرے کا اعلان کرکے دیتے ہیں۔ پھر وہ بھی کورونا کی نظر ہو کر ختم ہوجاتا ہے۔ اب تو بھارت کی ہر دراندازی اور دہشت گردی پر ان کا واویلہ نما بیان آجاتا ہے کہ بھارت ہم پر حملے کے بہانے ڈھونڈ رہا ہے… دنیا توجہ دے…
کپتان صاحب آپ تو اٹیکنگ کپتان کی حیثیت سے مشہور تھے، کشمیر کے معاملے میں جہاں بھارت جارحانہ انداز اپنائے ہوئے ہے آپ بھی اپنائیں پھر دیکھیں دنیا کیسے توجہ دیتی ہے۔ ارطغرل کے قبیلے کا جھنڈا بھی بڑا جارحانہ تھا جس پر دو تیروں اور ایک کمان کی شبیہ ہے۔ آج یہ شبیہ ترکی کی سرحدوں کے باہر چائے خانوں، دکانوں، ٹی شرٹس، کی چین اور ٹوپیوں پر نظر آرہی ہے۔ دنیا بھر سے سیاح ترکی کے قصبے ’’سوعوت‘‘ کا رخ کررہے ہیں۔ جہاں ان کے لیے سب سے بڑی کشش ارطغرل غازی کا مقبرہ ہے۔ سیاحوں کا کہنا ہے کہ وہ ارطغرل کی عکس بندی خصوصاً کائی (قائی) قبیلے کی بودوباش اور رہن سہن کے طریقوں سے اتنے مسحور ہوئے کہ انہوں نے سوعوت آنے کی ٹھان لی۔ ارطغرل کی قبر کے پہلو میں وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ وہاں سلطنت عثمانیہ کے زیر اثر رہنے والے تمام ممالک سے لائی گئی خاک کو بڑی ترتیب سے ڈبوں میں سجا کر رکھا گیا ہے۔ یہ ہے میڈیا اور اس کے ڈراموں اور فلموں کا بے پناہ ثقافتی اثر جو سرحدوں سے ماورا ہوتا ہے۔ کاش ہمارے چینلز، پروڈیوسر، رائٹر اور ایکٹر اس بارے میں کچھ کرنے کا سوچیں۔ حکومت کوئی پروڈکشن ہائوس بنائے۔ اُس کے لیے باقاعدہ فنڈ مہیا کیے جائیں کہ آج کا دور میڈیا وار کا دور ہے۔ اور میڈیا کا وار اسلحے کے وار سے قبل دلوں اور دماغوں دونوں کو فتح کرلیتا ہے۔