جب تک وبا کا خطرہ ٹل نہ جائے مساجد میں ایس او پیز پر عمل کریں، علماء کرام

607

علماء کرام کا کہنا ہے کہ جب تک حکومت یہ اعلان نہ کردےکہ اس وبا کا خطرہ ٹل گیا ہے،اس وقت تک مساجد میں ایس او پیز پر عمل کرائیں اور عوام کو احتیاطی تدابیر پر عمل کی ہدایت کرتے رہیں۔

اسلامک میڈیکل لرنر ز ایسوسی ایشن  ”املا”کے زیرِ اہتمام ”کورونا کی موجودہ صورتِ حال اور ہماری ذمہ داری”کے عنوان سے منعقدہ آن لائن ”ویبینار”ہو ا ، جس سے ممتاز علمائے کرام مفتی منیب الرحمن اور مفتی محمدتقی عثمانی سمیت ڈاؤ یونیورسٹی کےوائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے خطاب کیا، جبکہ موڈریٹر کے فرائض ”املا ”کے صدر ڈاکٹر محمد شمویل اشرف نے انجام دیئے۔

ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہا ہے کہ بین الاقوامی ماہرین نے پاکستان میں کورونا کی وباپیک (عروج/انتہائی وقت)13تا 16اگست کو قرار دیتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہےکہ یہ وبا اس عرصے کے دوران 80ہزار پاکستانیوں کی جانیں نگل سکتی ہے۔

پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہا کہ ہم اس تبا ہ کن وبا کے نقصانات کو روک نہیں سکتے، لیکن احتیاطی تدابیرپر سختی سے عمل کرکے یہ نقصانات کم کیے جاسکتے ہیں، ویت نام کے عوام نے فروری کے اوائل میں ماسک لگانا شروع کردئیے تھے۔

انہوں نے کہا کہ  جس بنا پر وبا نے صرف سات آٹھ سو افراد کو متاثر کیا، جبکہ ہم روزانہ آتے جاتے سیکڑوں لوگوں کو دیکھتے ہیں، جن میں سے اِکادکا ماسک لگائے ہوتے ہیں،اس درجہ بے احتیاطی اور لاپرواہی کے ذریعے ہم نقصان کو بڑھا سکتے ہیں کم نہیں کر سکتے، یہ باتیں انہوں نے کہیں

 پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہا کہ یونیورسٹی کالج لندن کے ماہرین نے پاکستان میں کورونا کی بگڑتی صورتِ حال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے ان خدشات کا اظہار کیا ہے،ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں وبا40فیصد آبادی کورونا سے متاثر ہے،ملک کی مجموعی صورتِ حال بہتر ہونے کے بجائے بگڑتی جارہی ہے، متاثرین کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے، ماسک اور دیگر ایس او پیز پر عمل کیئے بغیر ہم متاثر ہونے سے خود کو بچا نہیں سکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں کورونا کو بہت سنجیدگی سے لینا ہوگا، عوام کو ہی نہیں بلکہ ڈاکٹرز اور طبی عملے کو ان سے زیادہ محتاط ہونا پڑیگا، کورونا وارڈ میں فرائض انجام دیتے ہوئے کسی وقفے کے بغیر حفاظتی لباس اور ماسک نہیں اتارنا اور ڈیوٹی کے بعد گھر میں بھی حفاظتی اقدامات کرنے ضروری ہیں،یہ ایک مشکل کام ہے، لیکن ہمیں کرنا ہے۔

مرکزی رویتِ ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن نے کہا ہے کہ ہماری مساجد میں ایس او پیز اختیار کی گئیں، اللہ کا شکر ہے، انہیں ایس او پیز کی بنیاد پر مسجدِ نبوی اور عالمِ اسلام کی دیگر مساجد کو کھولا گیا اور عملدرآمد کروایا جا رہا ہے، یہ بات ہمارے لیے باعثِ فخر ہے کہ آٖغاز پاکستان سے ہوا۔

انہو ں نے علما، خطبا  پر زور دیا کہ جب تک حکومت کی جانب سے یہ اعلان نہ کر دیا جائے کہ اس وبا کا خطرہ ٹل گیا ہے،اس وقت تک مساجد میں ایس او پیز پر عمل کرائیں اور عوام کو احتیاطی تدابیر پر عمل کی ہدایت کرتے رہیں، اگر کسی مارکیٹ، بازار اور کسی اور جگہ پر بے احتیاطی اور بے تدبیری ہورہی ہے، تووہ ہمیں جواز فراہم نہیں کرتی کہ ہم بھی اس غلطی کے مرتکب ہوں۔

مفتی منیب نے کہا کہ ہمارا کام لوگوں کی تربیت کرنا ہے، یہی وجہ ہے کہ مساجد میں آنے والے لوگ نظم و ضبط کے پابند ہیں اور خود وزیرِ اعظم نے بھی اعتراف کیا ہے کہ کرونا کی وبا مساجد سے نہیں پھیلی۔

انہوں نے کہا کہ چین میں وبا پھیلنے کے بعد ضرورت اس بات کی تھی،کہ ہم اپنی سرحد بند کر دیتے، مگر بد قسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا، اب صورتِ حال کافی تشویشناک ہے، اب کوئی ایک فریق اس سے تنہا نہیں نمٹ سکتا، حکومت اور قوم کو مل کر مقابلہ کرنا ہوگا، صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو بھی باہم الجھنے کے بجائے پہلے وبا سے نمٹنا چاہیے۔

ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ احتیاطی تدابیر میں سختی ضروری ہے، انکی اہمیت سے انکار کرنا ممکن نہیں، مگر سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے جو سازشی نظریوں بات کی گئی ہے، اس سے عوام میں کنفیو زن پھیل گیا، بعض ڈاکٹرز کی بھی رائے سامنے آئی جو ان سازشی نظریا ت کے حق میںتھی جبکہ ہمارے بعض ڈاکٹرز کی رائے تھی کہ بیماری سے متاثرہ افراد کو ماسک لگانے کی ضرورت ہے، باقی لوگ ایسا نہ کریں۔

انہو ں نے کہا کہ اس قسم کی متضاد اطلاعات کے بعد جو صورتِ حال پیدا ہوئی وہ متوقع تھی، اس میں بڑا کردار جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کا ہے، لیکن اب آس پاس لوگوں کو مبتلا دیکھ کر لوگوں کو یقین ہوتا جارہاہے،کورونا ایک حقیقت ہے یہ کوئی سازش نہیں اب علما اور ڈاکٹر ز کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو اس حقیقت سے آگاہ کریں ا ور احتیاطی تدابیر کی طر ف راغب کریں۔