طیارہ حادثہ، رپورٹ اور انتباہ

267

 23 جون 2020، جسارت میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، کراچی ائرپورٹ کے نزدیک ماڈل کالونی کے علاقے میں 22 مئی کو گر کر تباہ ہونے والے پی آئی اے کے بد قسمت طیارے کی عبوری تحقیقاتی رپورٹ تیار کرلی گئی ہے جو وفاقی وزیر ہوا بازی نے پیر کو کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کو پیش کی۔ اس بد قسمت طیارے میں عملے سمیت 99 افراد موجود تھے جن میں سے 97 افراد شہید ہو گئے تھے۔ عبوری رپورٹ کے مطابق اس حادثے کی ذمے داری کپتان سمیت ائر ٹریفک کنٹرولر کے سر ڈال دی گئی ہے۔ خبر کی تفصیل کے مطابق لینڈنگ کے وقت طیارے کے کاک پٹ کریو نے ائر ٹریفک کنٹرولر کی ہدایات کو نظر انداز کیا۔ حادثے کے شکار پائلٹ اور ٹریفک کنٹرولر کی گفتگو کے ریکارڈ کے مطابق ائرکنٹرولر نے پائلٹ کو آگاہ کیا کہ ان کی بلندی ساڑھے 5 ہزار فٹ ہے جو ڈھائی ہزار فٹ ہونی چاہیے۔ اس پر پائلٹ نے جواب دیا کہ وہ ٹھیک ہے جس پر ائر ٹریفک کنٹرولر نے پائلٹ پر اپنی ہدایات پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے بجائے اسے کلیئرنس دے دی۔ شائع ہونے والی اس رپورٹ سے قبل بھی کچھ خبریں پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی زینت بنتی رہی تھیں جس میں ٹی وی چینلوں پر دکھائی جانے والی ویڈیوز میں یہ بھی دکھایا گیا تھا کہ تباہ ہونے سے قبل یہ طیارہ لینڈنگ گیر نہ کھلنے کی شکایت کی وجہ سے ہنگامی لینڈنگ کی کوشش میں ائر پورٹ کی سطح سے ٹکرایا بھی تھا اور جہاز کے انجنوں نے ائر اسٹرپ پر رگڑ بھی کھائی تھی۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ ائر پورٹ سے انجنوں کے ٹکرانے کی وجہ سے ان میں خرابی آ گئی ہوگی لیکن جہاز کا دوبارہ بلند ہوجانا اور موجودہ رپورٹ میں جہاز کا ڈھائی ہزار فٹ کی بلندی کے بجائے 5 ہزار فٹ تک کی بلندی کو دوبارہ چھو لینا انجنوں میں خرابی آجانے کی نفی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ موجودہ رپورٹ میں جہاز میں فنی خرابی کے امکان کو بالکل ہی رد نہیں کیا گیا۔
پاکستان میں اس قسم کے ہر حادثے کے بعد تحقیقات کا رخ عموماً ڈرائیورز یا پائلٹوں کی جانب ہی موڑ دیا جاتا ہے۔ روڈ پر ہونے والے دردناک حادثات ہوں، کسی ٹرین کا تباہ و برباد ہوجانا یا ہوائی جہازوں کا اترتے چڑھتے ریزہ ریزہ ہونے جیسے واقعات، ان کی حتمی رپورٹوں میں ذمے داریاں مرجانے والے بس ڈرائیورز یا ٹرین کے مرکھپ جانے والے آپریٹرز یا پھر پائلٹوں کے سر تھوپ دی جاتی ہیں اور یوں ہر وہ فرد اور ڈپارٹمنٹ بری الزمہ قرار دیدیا جاتا ہے جو سانس لے رہا ہوتا ہے۔ تحقیقات کا یہ انداز ہے جو پاکستان کے ہر ادارے میں موجود ہے، سراسر سہل پسندی یا پھر حقائق کو جان بوجھ کر چھپانے کی مجرمانہ حرکت کے علاوہ اور کچھ نہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر قسم کے ذمے دار اور اپنے فرائض سے مجرمانہ غفلت برتنے والے صاف بچا لیے جاتے ہیں۔ رپورٹ میں کپتان کو قصوروار قرار دینے کا مطلب یا تو کپتان کا نیا نیا بھرتی ہونا ہو سکتا ہے، یا بہت زیادہ عمر رسیدہ یا بالکل ہی اناڑی، جبکہ جو کپتان جہاز کو لاہور سے لے کر آرہا تھا اس کی ہوا بازی کا ریکارڈ بہت شاندار رہا تھا، وہ تجربہ کار بھی تھا اور توانا بھی اس لیے اناڑی پن کا کوئی الزام اس کے سر ڈالنا غیر مناسب سا لگتا ہے۔ ایمانداری کی بات یہ ہے کہ دنیا میں ہر فرد کو جان بہت عزیز ہوا کرتی ہے اس لیے یہ سوچ لینا کہ کوئی پائلٹ خود کشی کرنے کا شوق رکھتا ہوگا، احمقانہ سوچ ہے۔ جہاز کو تباہ کرنے کا ایک جواز تخریب کاری کے ذریعے دہشت پھیلانا بھی ہو سکتا تھا تو اس کا بھی اصل مقام چند سو گز دور کنٹونمنٹ ایریا ہوتا جہاں اسلحہ و گولہ بارود کا تھوڑا بہت ذخیرہ ضرور موجود ہوگا اور خود ائر پورٹ پر کھڑے بے شمار جہاز بھی نشانہ بنائے جا سکتے تھے۔
ان نکات کی روشنی میں کسی قسم کی تخریب کاری کا الزام کپتان کے سر ڈالنے والی بات کسی حد تک سمجھ سے باہر کی سی لگتی ہے جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ جیسا کے رپورٹ میں جہاز کی فنی خرابی کے امکان کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا ہے، یہ نکتہ بہت توجہ طلب ہے، لیکن رپورٹ کے مطابق ان معاملات کی مکمل تحقیقات کے لیے 6 ماہ سے بھی زیادہ کا وقت مانگا جانا بے معنی سا لگتا ہے۔ ہر وہ فرد جس کو تحقیقاتی کمیٹی یا کمیشن کا رکن بنایا جاتا ہے، خواہ اس کا تعلق کسی بھی ادارے سے ہو، اس پر فرض ہوتا ہے کہ وہ سچ کے علاوہ کچھ نہ لکھے کیونکہ اس کی ذمے داری میں معصوم روحیں ہوا کرتی ہیں۔ اگر وہ تحقیق میں انصاف اور سچ کے ساتھ کھڑا نہ ہو سکا تو بروز حشر، وہ تمام روحیں، اصل انسانی شکلوں میں انصاف ضرور طلب کریں گی لہٰذا دنیا میں ہی اپنے آپ کو کلیر کرلینا نہایت ضروری و لازمی ہے۔ کاش اس بات کی گہرائی ہر منصف سمجھ لے تو دنیا کا نقشہ ہی بدل سکتا ہے۔