پیشہ طب میں مہارت کیلئے ایک تو علمی صلاحیت و لیاقت اور دوسرے مشق و تمرین کی ضرورت ہوتی ہے۔ مناسب لیاقت اور مشق و تمرین ہی مناسب دوا اور علاج کی فراہمی میں معاون و مددگار ہوتے ہیں۔ نبی اکر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
ہاں! اے اللہ کے بندوں! دوا اور علاج کرو، چونکہ اللہ عزوجل نے کوئی بیماری ایسی نازل نہیں کی ہے جس کی شفاء نازل نہ کی ہو۔ اس کا علم بعض لوگوں کو تو ہوا اور بعض جاہل رہے۔
اس حدیث میں طب کے میدان میں جدید اکتشافات، بحث و تمحیص اور زود اثر اور فعال دواؤں کی تیاری پر زور دیا گیا ہے اور ڈاکٹر کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اپنے فن سے متعلق نئی اور جدید انکشافات پر مطلع ہو۔ چونکہ صحیح اور مناسب حال دوا ہی بیماری کو دفع کرسکتی ہے۔ حضور اکرم کا ارشاد ہے،
ہر بیماری کیلئے دوا ہے اور جب دوا بیماری کو لگتی ہے تو اللہ کے حکم سے شفا ہوجاتی ہے۔
علاوہ ازیں نبی صلہ اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی تاکید کی ہے کہ ڈاکٹر کو چاہئیے کہ اپنے علاج و معالجہ کے سلسلے میں اپنے پیشہ کے ماہرین سے رجوع کرتا رہے ورنہ اگر وہ اپنی ناقص معلومات کی بنیاد پر علاج کرے گا تو یہ چیز مریض کیلئے جان لیوا اور مہلک ثابت ہوگی۔ چنانچہ ارشاد ہے،
جو شخص جہالت کے ساتھ طبابت کرے تو وہ شخص ضامن ہوگا۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا،
جب تم میں سے کوئی شخص کسی کام کو انجام دے تو اس میں مہارت اور پختگی حاصل کرے۔
صحت شریعت میں نہایت ہی مطلوب اور محمود چیز ہے۔ صحتمند توانا شخص ہی عباداتِ خداوندی اور اوامرِ خداوندی کو بہترین طریقہ سے انجام دے سکتا ہے۔ اسلام نے شخصی اور اجتماعی صحت میں کوئی فرق نہیں کیا ہے۔ شخصی صحت ہی اجتماعی صحت کی ضامن ہوتی ہے۔ اسلام نے صحت جسمانی کی اہمیت و افادیت کو بہت اجاگر کیا ہے جس کا اندازہ اس حدیثِ مبارکہ سے لگایا جاسکتا ہے،
طاقتور مومن اللہ عزوجل کے ہاں کمزور مومن کے مقابل ہر معاملہ میں بہتر اور پسندیدہ ہے۔