اونٹ تپتے صحرا میں پانی کو اپنے جسم کے اندر ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ پانی بخارات کے ذریعے اس کے جسم سے کم سے کم خارج ہوتا ہے۔ اونٹنی کو جب پانی کی کمی کاسامنا ہوتا ہے تو اس وقت بھی اس کے دودھ میں پانی کی کافی مقدار ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ دوسرے نمکیات جیسے سوڈیم کلورائیڈ کی مقدار جو دودھ میں دس ملی لیٹر سے بڑھ کر 23 ملی لیٹر تک پہنچ جاتی ہے، موجود ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ سوڈیم کلورائیڈ انسان کی صحت کیلئے بہت ضروری ہے خاص طور پر ایسے علاقے میں جہاں شدید گرمی ہونے کی وجہ سے پسینہ زیادہ آتا ہے کیونکہ پسینے کے ساتھ سوڈیم کلورائیڈ بھی ہمارے جسم سے خارج ہوتا ہے۔ اس صورتحال میں اونٹنی کے دودھ سے اس کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے۔
اونٹنی کا دودھ ساخت کے اعتبار سے انسانی دودھ سے ملتا جلتا ہے۔ پروٹینز اور وٹامنز سے بھرپور ہونے کی وجہ سے کمزور بچوں اور بڑوں کو توانائی دیتا ہے۔ اس میں کیلشیئم، وٹامن اے، بی، بی6 کے علاوہ کئی اہم معدنیات مثلاً پوٹیشیئم، تانبا، میگنیز، میگنیشیئم، سوڈیم اور فولاد ہوتا ہے۔
ماہرین غذائیت کی تحقیق کے مطابق اونٹنی کا دودھ گائے کے دودھ سے بہتر ہوتا ہے کیونکہ اونٹنی کے ایک لیٹر دودھ میں انسولن کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جبکہ پوٹیشیئم، تانبا، میگنیز، میگنیشیئم، سوڈیم اور فولاد کی مقدار بھی گائے کے دودھ کی بنسبت اونٹنی کے دودھ میں زیادہ ہوتی ہے۔
اونٹنی کے دودھ میں ضد جرثومی مرکبات بھی ہوتے ہیں جو انسان کیلئے بہت مفید ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گائے کا دودھ دنیا میں زیادہ پیا جاتا ہے لیکن کیلشیئم کی مقدار اونٹنی کے دودھ میں زیادہ ہوتی ہے اور اس میں جکنائی بھی گائے کے دودھ کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔