عدالتِ عظمیٰ کی نیب کے خلاف چارج شیٹ؟

330

عدالتِ عظمیٰ کے کل کے تفصیلی فیصلے کے بعد اب اس بات کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہ گئی کہ ’’نیب‘‘ کو بطور عدالت ملک میں کام کرنے دیا جائے۔ عدالت ِ عظمیٰ نے نہ صرف نیب کو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کیا بلکہ اسے باقاعدہ مجرم قرار دیکر اس کے اب تک کے دیے گئے ہر فیصلے کو ظالمانہ بھی قرار دے دیا۔ جسارت میں شائع ہونے والے تفصیلی فیصلے کی روشنی میں اب اس بات کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی کہ نیب کو مزید کام کرنے کی اجازت دی جائے۔ اگر اس تفصیلی فیصلے کے باوجود بھی نیب اپنا کام جاری رکھتا ہے تو پھر یہ فیصلہ مشکل ہو جائے گا کہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کون سی ہے۔
عدالت عظمیٰ نے ن لیگ کے رہنماؤں خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی خواجہ سلمان رفیق کی ضمانت کے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ ’’نیب کیس انسانی تذلیل کی بدترین مثال ہے۔ جس فیصلے کے آخر میں حبیب جالب کا یہ شعر تک تحریر ہوکہ ’’ظلم رہے اور امن بھی ہو، کیا ممکن ہے تم ہی کہو؟‘‘۔ کیا اس کے بعد بھی اس بات کی کوئی گنجائش رہتی ہے کہ نیب کے فیصلوں کو آئین و قانون کے عین مطابق تصور کیا جائے؟۔ عدالت ِ عظمیٰ اپنا فیصلہ صرف خواجہ برادران کی حد تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ عدالت نے الزامات کے دائرے کو عوام کی شکایات تک وسیع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’آج بھی پاکستان کے عوام کوآئین میں دیے گئے حقوق نہیں مل رہے ہیں، ہماری نجات آزادی اظہار رائے میں ہے۔ جب تک ہم جمہوری اقدار کا کلچر پیدا نہیں کرتے امن کا قیام خواب ہی رہے گا۔ پاکستان میں جمہوری اقدار، احترام، برداشت، شفافیت اور مساوات کے اصولوں کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ عدم برداشت، اقرباپروری، جھوٹ، دھونس، خودنمائی، ترجیحات بن چکی ہیں‘‘۔ یہ وہ سارے الفاظ جو ایک طرح فرد جرم کے سے انداز میں تحریر کیے گئے ہیں جو اس بات کی کوئی گنجائش ہی نہیں چھوڑ رہے کہ نیب کو کسی بھی قسم کی عدالت اور اس کے فیصلوں کو انصاف کے مطابق سمجھا جائے۔ فیصلے میں لکھا ہے کہ ضمانت کا مقصد ملزم کی ٹرائل میں حاضری کو یقینی بنانا ہے، مقصد سزا دینا، جیل بھیجنا یا آزادی سے محروم کرنا نہیں بلکہ تمام مہذب معاشروں میں مجرم قرار دینے کے بعد ہی سزا شروع ہوتی ہے، جب تک ٹرائل کے بعد سزا نہ سنادی جائے ملزم بے گناہ تصور ہوتا ہے، ٹرائل سے پہلے یا ٹرائل کے دوران سزا اذیت کا باعث ہے‘‘۔ اسی فیصلے کے تسلسل میں عدالت کا کہنا ہے کہ یہاں پر جرم ثابت ہوئے بغیر بھی ملزموں کو کئی کئی مہینوں اور برسوں قید میں رکھا جاتا ہے جو عدل و انصاف کے خلاف ہے۔
عدالت ِ عظمیٰ نے نیب ہی کو حوالہ بناتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ’’ملک میں آئین کے برعکس پاکستان کے عوام کے بنیادی حقوق کے منافی عمل ہورہا ہے، جب بھی قانون کی حکمرانی آئین کی بالادستی کی کوشش کی گئی تو اسے پوری قوت سے دبانے کی کوشش کی گئی، غیرجمہوری قوتوں کی طرف سے طاقت کا استعمال جمہوری اصولوں کی نفی بنتا گیا‘‘۔ فیصلے میں مزید لکھا گیا ہے کہ ’’پیرا گون مقدمہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور انسانی تذلیل کی بدترین مثال ہے۔ نیب کا قانون اور آئین کا جائزہ لینے کے باوجود یہ بات راز میں ہے کہ یہ مقدمہ کیسے بنایا گیا‘‘۔
عدالتِ عظمیٰ کے تفصیلی فیصلے کے بعد نیب کی جانب سے نہ صرف وضاحت آنی چاہیے بلکہ ارباب اختیار و اقتدار کے لیے بھی یہ ایک لمحۂ فکر ہے کہ آیا نیب کو مزید کام کرنے کی اجازت ہونی چاہیے یا اس کے قوانین میں ترا میم کر کے اسے ایک آزاد اور خود مختار ادارہ بنا کر اس کے دائرہ اختیار کو عام فرد سے لیکر ملک کے تمام اداروں تک بڑھایا جائے اور بلا امتیاز احتساب کو فروغ دے کر ملک میں کرپشن فری کلچر کو فروغ دیا جائے۔
عدالت ِ عظمیٰ کے فیصلے سے ملک میں یقینا ایک نئی بحث کا آغاز ہو چکا ہے لیکن کیا عدالت ِ عظمیٰ خود بھی اس بات کا جائزہ لے گا کہ 7 سے زیادہ دہائیوں کے دوران خود اس کے اپنے فیصلے کہاں کہاں مصلحتوں کا شکار نظر آتے رہے ہیں اور کتنی بار منتخب جمہوری حکومتوں کی توڑ پھوڑ پر لبوں پر تالے پڑے رہے ہیں۔ کراچی میں سب کچھ قانونی تو نہیں ہوتا رہا، بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں آگ و خون کی ہولیاں کبھی ظالمانہ کارروائیوں میں شمار نہیں کی گئیں اور اغوا شدگان کی لاشوں کی ذمے داری کبھی کسی پر عاید کیوں نہیں کی گئی۔ خواجہ برادران کے خلاف فیصلے پر ایسی چراغ پائی کی کون سی بات ہو گئی کہ پورے پاکستان میں اسے آگ کے شعلے اور سنگ و آہن کی برسات نظر آنے لگی؟۔ ظلم کو اگر پہلے قدم پر ہی نہیں روکا جائے تو پھر وہ جواز کے ہزار راستے کھول لیا کرتا ہے اور یہی کچھ اب پاکستان میں اس حد تک فروغ پاچکا ہے کہ نیب تو خیر بہت ’’مقدس‘‘ ادارہ ہے، کوئی گرے سے گرا محکمہ بھی قانون کی گرفت میں نہیں لایا جا سکتا اس لیے کہ پاکستان میں تمام اداروں، یہاں تک کہ ریاست کے سب سے اعلیٰ ادارے، حکومت سے بھی بڑی کوئی قوت ایسی ہے جس کی مرضی کے بغیر عدالتِ عظمیٰ بھی اپنا سانس نہیں لے سکتی۔ پاکستان کی تمام سیاسی قوتیں جب تک ’’بھان متی کا کنبہ‘‘ بنی رہیں گی یہ کھیل تماشے جاری رہیں گے اور دنیا میں پاکستان کا ستارہ اسی طرح چمکتا دمکتا رہے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عدالت ِ عظمیٰ اپنی سپرمیسی منوائے تاکہ پورے پاکستان اور اس کے اداروں کو اپنے اپنے قانونی دائروں کا پابند بنایا جا سکے ورنہ اس قسم کے سارے فیصلے ملک میں مزید بے چینی تو پھیلا سکتے ہیں، پاکستان میں امن، چین اور انصاف کو فروغ کسی صورت نہیں دے سکتے۔