کراچی کے ووٹر اور تحریک انصاف

405

یہ شاید 2014 یا 2015 کا واقعہ ہے کہ کچھ لوگ بلدیہ وسطی کے ایم کیو ایم کے چیئرمین سے ملاقات کے لیے گئے وہ اپنی آبادی کے کچھ مسائل پر بات کرنے گئے تھے، متعلقہ چیئرمین نے کچھ مسئلے فوری حل کردیے، کچھ کے وعدے ہوئے کچھ مسائل کے بارے میں معذرت کی گئی۔ دوران گفتگو ایک صاحب بار بار یہ کہہ رہے تھے ہم نے ہمارے محلے والوں نے اور سب رشتہ داروں نے ہر الیکشن میں ہمیشہ ایم کیو ایم کو ووٹ دیے ہیں، مذاکرات کے بعد بھی وہ صاحب لہک لہک کر یہی بات کہہ رہے تھے ان کا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ہمارے ووٹوں سے ایم کیو ایم جیتتی چلی آئی ہے اس لیے اس کو ہمارے کام کرنے ہی کرنے ہیں، چیئرمین صاحب کو غصہ آگیا انہوں نے دراز میں سے ایک خاکی کپڑا نکالا اس کے اندر کوئی چیز لپٹی ہوئی تھی کپڑا کھولا تو اس میں ریوالور تھا وہ صاحب تھوڑا سہم گئے چیئرمین صاحب نے ان صاحب سے جو بہت چہک رہے تھے کہا کہ ہم الیکشن تمہارے ووٹوں سے نہیں بلکہ اس سے جیتے ہیں ان کا اشارہ اسی پستول کی طرف تھا۔ پورے وفد پر جیسے سناٹا چھا گیا ہو۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو ایم کیو ایم کے چیئرمین کی یہ بات درست تھی کہ ایم کیو ایم کی ووٹنگ پاور روز بروز کم ہوتی جارہی تھی، وہ اسلحے کے زور پر الیکشن جیت رہے تھے اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ اگر انتخاب میں اسلحہ نہیں ہوتا ایم کیو ایم ہار جاتی بلکہ یہ ہوتا کہ کچھ کونسلروں کی تعداد کم ہوجاتی اور جہاں جیت ہوتی وہ کم مارجن سے ہوتی۔
2013 کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم کی سیاسی پوزیشن بہت گری ہوئی تھی اس انتخاب میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کو بے تحاشا ووٹ پڑ رہے تھے ہر جگہ لوگ بڑے جوش و جذبے سے اینٹی ایم کیو ایم ووٹ ڈال رہے تھے یہ چیز ایم کیو ایم نے بھانپ لی تھی تو اس لیے تمام پولنگ اسٹیشنوں پر ایم کیو ایم نے تشدد اور غنڈا گردی کا بہت شدید ماحول پیدا کیا مخالف امیدواروں کی خواتین پولنگ ایجنٹوں کو غلیظ گالیاں بکی گئیں بالآخر جماعت اسلامی کو اپنے پولنگ ایجنٹوں اور کارکنوں کی حفاظت کی خاطر انتخاب کا بائیکاٹ کرنا پڑا نوجوانوں اور خواتین کی بڑی تعداد ایم کیو ایم سے پرچی لے کر بلے کو ووٹ ڈال رہے تھے ایک لڑکے نے اپنے نوجوان دوست کو پچیس ووٹرز کی بک دی اور اس سے کہا کہ پتنگ پر مہر لگائو وہ لڑکا اس کے سامنے پتنگ پر مہر لگاتا رہا جیسے ہی اس کا دوست وہاںسے ہٹا اس نے بقیہ اٹھارہ پرچیوں پر بلے کو مہر لگا کر ڈبے میں ڈال دیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت ایم کیو ایم کے خلاف نفرت اتنے عروج پر تھی کہ ان پر اگر اسٹیبلشمنٹ کا سایہ نہ ہوتا تو 2013 ہی میں ایم کیو ایم کا سیاسی جنازہ نکل چکا ہوتا۔
تمام تفصیل بتانے کا مطلب یہ کہ 2018 کے الیکشن میں تحریک انصاف سے اہل کراچی کا جذباتی لگائو انتہائی کم ہو چکا تھا لیکن اس الیکشن میں جس طرح تحریک انصاف کو پلیٹ میں سجا کر قومی اور صوبائی نشستیں پیش کی گئیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ہمارے علاقے کے ایم این اے کے بارے میں بتایا گیا وہ گھر پر اطمینان سے سو رہا تھا اسے اٹھا کر بتایا گیا کہ آپ ایم این اے بن چکے ہیں۔ کراچی سے تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کی 14اور صوبائی اسمبلی کی 25سے زائد نشستیں ملیں۔ بہت ساری نشستوں پر امیدواروں کو یہ شکایت رہی کہ انہیں فارم 45نہیں دیا گیا۔ بہر حال 2013 کے الیکشن میں، پاکستان الیکشن کمیشن کے سیکرٹری اشتیاق احمد کا پی ٹی وی پر یہ بیان آیا جو میں نے خود بھی سنا تھا کہ کراچی میں الیکشن ہی نہیں ہوئے یہاں دوبارہ الیکشن ہونا چاہیے، ایم کیو ایم نے اس پر شدید اعتراض کیا مخالف جماعتوں نے الیکشن کمیشن کے باہر ایک ہفتے تک دھرنا دیا اسی 2013 کے الیکشن میں ہم نے یہ منظر بھی دیکھا کہ پولنگ اسٹیشن سے ووٹنگ کا ایک ڈبا اٹھا کر روڈ پر ایک دکان کے چبوترے پر رکھ دیا گیا اور اعلانیہ لوگ ووٹ کی پرچی پر مہر لگا کر اس ڈبے میں ڈال رہے تھے۔ 2018 کے الیکشن میں ایسا منظر تو دیکھنے کو نہیں ملا، اس لیے کہ پولنگ اسٹیشن کے اندر پورا کنٹرول فوج کے ہاتھ میں تھا اس لیے دن بھر پولنگ پر سکون ماحول میں ہوتی رہی، اب تھوڑی دیر کے لیے یہ تصور کرلیں کہ کسی علاقے کا وفد اپنے مسائل کے حوالے سے گورنر سندھ سے ملتا ہے، ان میں سے کچھ بڑے چہک چہک کر یہ کہیں کہ ہم نے ہمارے گھر والوں نے ہمیشہ عمران خان کو ووٹ دیا ہے، اور ہم نے اس وقت عمران خان کا ساتھ دیا ہے جب کراچی میں ان کے لیے کام کرنے والے انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے۔ جب کئی دفعہ کی تکرار کے ساتھ ایک ہی بات سن سن کر گورنر سندھ بیزار ہو جائیں تو وہ بھی شاید دراز میں سے کوئی خاکی کپڑا نکال کر وہی جواب دیں جو ایم کیو ایم کے چیئرمین نے دیا تھا حالانکہ وہاں پر کپڑے میں اسلحہ تھا لیکن صرف خالی خاکی کپڑا ہے۔
ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح بغیر کسی محنت کے کسی کو جیت مل جاتی ہے تو کیا اس کو اس کی جیت آئندہ کام کرنے کی صلاحیت اور قوت عمل میں تیزی حاصل ہوگی یا سست روی اس لیے ایک آدمی دن رات محنت کرتا ہے، لوگوں سے رابطے کرتا ہے اپنی ٹیم کو متحرک کرتا ہے بڑی جان توڑ کوششوں کے بعد اسے کامیابی حاصل ہوتی ہے تب اس کی خوشی قابل دید ہوتی ہے وہ اپنے حلقہ انتخاب میں ترقیاتی کام کرانے کی ابھی سے منصوبہ بندی کرنے لگتا ہے اس کی اپنی محنتوں سے کامیابی آئندہ کے اس کے تحرک کا ذریعہ بن جاتی ہے اس وقت کراچی میں تحریک انصاف کے پاس قومی اور صوبائی کی نشستیں بڑی وافر مقدار میں لیکن ابھی تک کراچی کا کوئی مسئلہ تحریک انصاف کی حکومت حل نہیں کراسکی۔ کراچی کے شہری حیران و پریشان ہیں کہ جھولی بھر بھر کے تحریک انصاف کو ووٹ دیے لیکن یہ جماعت کراچی کے شہریوں کو کے الیکٹرک کے ظلم سے نجات نہ دلا سکی۔ تحریک انصاف میں تنظیمی صلاحیت کا فقدان ہے اس لیے تحریک انصاف اپنے ارکان قومی و صوبائی کو کوئی واضح لائحہ عمل نہیں دے سکی۔ اور شاید تحریک انصاف کے یہ ارکان قومی و صوبائی جو ہلدی لگے نہ پھٹکری رنگ چوکھا آوے کے مصداق کامیاب ہوئے ہیں اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ آئندہ بھی ان کو اسی طرح گھر بیٹھے جیت کا پروانہ مل جائے گا۔ میرے خیال میں اب ایسا ہونا ناممکنات میں سے ہے کراچی کا نوجوان مایوس ہے داخلوں اور ملازمتوں میں میرٹ کی دھجیاں اڑا دی گئیں ہیں بڑی تعداد میں کراچی کے نوجوان بے روزگار ہیں اندر ہی اندر ایک لاوا پک رہا ہے جو آئندہ کے انتخاب میں کراچی سے تحریک انصاف کا صفایا کر دے گا۔