فاطمہ عزیز
جین ٹونجی جو کہ سان ڈیاگو یونیورسٹی میں سائیکو لوجی کی پروفیسر ہیں سے جب سوال کیا گیا کہ کیا اسمارٹ فونز ایک نسل تباہ کر رہے ہیں؟ تو ان کے مطابق جو لوگ 1995ء کے بعد پیدا ہوئے ہیں ذہنی طور پر کمزور ہیں اور زیادہ تر ذہنی بیماریوں کا شکار رہتے ہیں۔ ان کے مطابق اس کی اصل وجہ اسکرین کے ساتھ چپکے رہنا ہے۔ جین ٹونجی ایک کتاب کی مصنفہ بھی ہیں۔ ان کی کتاب ’’آئی جین‘‘ یعنی آئی فون جنریشن میں بھی انہوں نے بچوں میں اور جوان نسل میں بڑھتے ہوئے اسکرین کے شوق کو اور اس سے ہونے والی ذہنی بیماریوں کا ذکر کیا ہے، یہ کتاب ٹیک نولوجی بنانے والوں میں شدید تنقید کی ضد میں رہی ہے۔
جین ٹونجی نے اس موضوع پر تحقیق کی اور ان کے سرورے کے مطابق جو لوگ دن میں ایک سے دو گھنٹے اسکرین یا اپنے گیجٹس کے ساتھ گزارتے ہیں وہ ان لوگوں کی نسبت کم خوش رہتے ہیں جو لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا اور باتیں کرنا پسند کرتے ہیں۔ ان کی تحقیق ’’ایموشن‘‘ جنرل میں شائع ہوئی جو کہ امریکن سائیکولوجیکل ایسوسیشین کی جانب سے شائع کیا جاتا ہے۔
پروفیسر جین نے ایک سروے کیا جس میں انہوں نے ہزاروں نوجوان لوگوں سے سوالات پوچھے کہ کیا وہ خوش رہتے ہیں؟ اس سروے میں نو اور دس کلاس کے بچوں کو بھی شامل کیا گیا۔ ان سے دوسرا اہم سوال یہ کیا گیا کہ وہ ہفتے میں کتنے گھنٹے اسکرین استعمال کرتے ہیں اور کتنا وقت سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں۔ اس ڈیٹا کے مطابق جو بچے ایک سے دو گھنٹے ہفتے میں سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں ان میں سے تیرہ فیصد ناخوش رہتے ہیں۔ اسی طرح یہ گراف سوشل میڈیا کے استعمال سے بڑھتا گیا مثال کے طور پر جو لوگ ہفتے میں دس سے انیس گھنٹے اسکرین استعمال کرتے ہیں ان میں اٹھارہ فیصد خوش نہیں ہوتے اور چوبیس فیصد لوگ وہ تھے جو خوش نہیں تھے اور چالیس گھنٹے اسکرین اور سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے گزارتے ہیں۔ اس سروے میں اور بھی اہم سوالات کیے گئے جیسے کہ بچوں کے معمولاتِ زندگی اور ان کے اثرات جو کہ ان کے خوش نہ ہونے کی وجوہ نہیں۔ اس ریسرچ کے شائع ہونے کے بعد آئی فون اور ٹیک کمپنیز نے کافی شور مچایا اور ٹونجی کو الزام دیا کہ وہ سروے کے بائیو ڈیٹا سے وہ باتیں ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جن کا اصل میں وجوہ نہیں ہے۔ ٹونجی نے بھی یہ بات مانی کہ اس ریسرچ میں صرف سوالات سے بائیو ڈیٹا جمع کیا گیا اور اسکرین ٹائم کو دماغی صحت سے جوڑا گیا ہے اور ہو سکتا ہے کہ دماغی صحت کا بچوں میں گرائو کسی اور وجوہ کی بنا پر ہو ۔ کچھ محققین کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے نوجوان نسل اپنی زندگی سے کسی اور وجوہ کی بناء پر نا خوش ہوں اور اپنے مسائل کو اسکرین استعمال کر کے اور سوشل میڈیا کی دنیا میں گم ہو کر اپنا غم بھلانے کی کوشش کرتے ہوں ۔
اس سب کے باوجود ٹو نجی بچوں کی دماغی صحت اور دماغی بیماریوں کے بڑھتے ہوئے گراف سے کافی نا خوش ہیں ۔ انہوں نے یہ سروے2012ء میں کیا اور اس کے بعد سال2015ء میں دوبارہ سروے کیا ۔ ان کا سوال یہ ہے کہ آخر ان تین سالوں میں ایسا کیا ہوا کہ بچوں میں دماغی بیماریاں اتنی بڑھ گئیں ۔ ان کے مطابق بچوں میں ڈپریشن اور خود کشی کرنے کی وجوہات ڈھونڈنے کی ضرورت ہے ۔ سال2018ء میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے گیمنگ یعنی گیم کھیلنے کو دماغی بیماری قرار دیا ۔
میلنڈا گیٹس(Melinda Gates) جو کہ فلان ٹروپسٹ ہیں اور نئی نسل میں نئے نئے آئیڈیاز متعارف کرواتی ہیں کا کہنا ھے کہ ’’ میں نے ہمیشہ ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ زندگی گزاری ہے ۔ مگر اس کا اثر میں اپنے بچوں میں دیکھنے کے لیے تیار نہیں تھی ۔
انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہار’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ پر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ فونز اور ایپس بذاتِ خود اچھی یا بری نہیں ہوتی ہیں مگر بچے جو کہ دماغی طور پر میچور نہیں ہو پائے ہوتے اور ان میں اتنی جذباتی سمجھ نہیں ہوتی کہ وہ ٹیکنالوجی کے اثرات ہینڈل کر پائیں اور اس طرح بچوں میں جذباتی مسائل پیدا ہوتے ہیں اور زندگی گزارنا ان کو مشکل لگتا ہے
لین ہارٹ جو کہ بیٹر لائف لیب امریکا میں ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں نے2015ء میں ایک رپورٹ شائع کی جس میں92فیصد بچے ہر وقت آن لائن رہنا پسند کرتے ہیں مگر لین ہارٹ نے بچوں سے یہ سوال نہیں پوچھا کہ وہ کتنے گھنٹے سوشل میڈیا میں گزارتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق بچے عموماً اس بات کا حساب کتاب نہیں رکھتے اور جواب صحیح نہیں دے پاتے ۔ لین ہارٹل کے مطابق آج کی جنریشن بہت زیادہ وقت اسکرین اور فونز استعمال کرتے ہوئے گزارتی ہے جس سے ان کی زندگی میں اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ یہ ایسے ڈیوائس ہیں جس نے ہماری زندگیوں کو کافی تبدیل کر دیا ہے ۔ ان0کچھ تبدیلیاں جہاں اچھی ہیں وہاں بری بھی ہیں ۔ لین ہارٹ ایک نئی ریسرچ کرنا چاہتی ہیںجس کا موضوع یہ ہوگا کہ کیا واقعی اداس بچے ٹیکنالوجی میں چھپ کر اپنا غم بھلانے کی کوشش کرتے ہیں یا ٹیکنالوجی کا استعمال انہیں غمگین بناتا ہے ۔
دوسری طرف ٹو نجی کے مطابق جواں نسل اور بچوں میں سب سے زیادہ اسپورٹس کھیلنے سے خوشی حاصل ہوتی ہے، دوسرے نمبر پر لوگوں سے ملنے ملانے پر اور تیسرے نمبر پر مذہبی کام کرنے سے خوشی اور سکون حاصل ہوتی0ہے ۔