صرف باتیں ہیں کہ اعمال میں گوہر سے بھی ہو

329

14 اگست کے حوالے سے بھی ملک کے طول و عرض میں بے شمار چھوٹی بڑی تقاریب منعقد ہوئیں جن میں پاکستان بنانے کے مقاصد اور آزادی کی اہمیت پر بہت سیر حاصل باتیں کی گئیں اور شرکائے مجلس کو اس دن کی اہمیت سے آگاہ کیا گیا۔ ایسی تقریبات جن میں ملک کی غیر ممتاز شخصیات شریک ہوتی ہیں ان کی باتوں اور زورِ خطابت کو تو کسی حد تک نظر انداز کیا جا سکتا ہے لیکن جن میں ملک کی ذمے دار شخصیات شریک ہوں اور اہم عہدوں پر فائز افراد جب الفاظ کے دریا بہا کر شرکا کے جذبوں کو ابھار رہے ہوں اور آزادی جیسی نعمت کے ساتھ ساتھ پاکستان بنانے کے مقاصد پر روشنی ڈال رہے ہوں تو شرکا ان سے مستقبل کے لیے ٹھوس تجاویز سننے کے لیے بے چین ہوتے ہیں اور ان کی ذمے داری میں جو جو امور آتے ہیں ان میں کچھ عملی پیش رفت کو اپنی آنکھوں سے ہوتا ہوا دیکھنے کے خواہش مند بھی ہوتے ہیں لیکن جب ان کی جانب سے صرف خوبصورت الفاظ کے سوا اور کچھ بھی سجھائی نہیں دیتا تو یقینا شرکا اور قوم کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کون جیتا جاگتا انسان ’’آزادی‘‘ کی نعمت سے آگاہ نہیں۔ آزادی کی اہمیت سے انسان ہی کیا، کوئی جاندار بھی انکار نہیں کر سکتا۔ ہم اگر کسی معمولی سے کیڑے کو بھی قیدی بنالیں تو وہ اپنے آپ کو آزاد کرانے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ لوگ توتے میناؤں کو برسوں پنجروں میں قید رکھتے ہیں، ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے ہیں، لیکن جب بھی انہیں فرار کا موقع ملتا ہے وہ اپنے آپ کو آپ سے دور کر لینے میں لمحہ نہیں لگاتے۔
ننکانہ صاحب میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ جناب بریگیڈیر (ر) اعجاز احمد شاہ نے کیا خوب ارشاد فرمایا ہے کہ ’’آزادی نہ ملتی تو آج ہمارا حال وہی ہوتا جو بھارت میں مسلمانوں کا ہے، آدھا ملک گنوا دیا، مزید ٹوٹ پھوٹ کے متحمل نہیں ہوسکتے، اپنا آپ ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ انہوں نے مزید یہ بھی فرمایا کہ ’’یہ ملک ریاست مدینہ کی طرز پر تعمیر ہو رہا ہے‘‘۔ ان کے فرمان کا ایک جملہ بھی ایسا نہیں جو دل کے جذبوں کو نہ چھوتا ہو اور پاکستان کے مقصدِ وجود کی جانب اشارہ نہ کرتا ہو لیکن کیا عملاً پورے ملک میں ایسا ہی ہو رہا ہے جس کا اظہار انہوں نے اپنے خطاب میں کیا۔ کیا پاکستان میں ہر شخص کو حقیقی آزادی اصل ہے، کیا ہمارا میڈیا مکمل آزاد ہے، کیا ہماری عدالتیں اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں، کیا ہر پاکستانی ملازمتوں کے حصول میں مکمل آزاد ہے، کیا ہر فرد رائے دہی میں آزاد ہے، کیا سیاسی جماعتیں اپنے موقف کے اظہار کے لیے مکمل آزاد ہیں اور کیا پاکستان کی ہر کمیونٹی کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔ آزادی ایک نعمت عظمیٰ سہی لیکن آزاد ہوجانے والوں کو ایک قید سے نکال کر کسی دوسری قید میں ڈال کر یہ سمجھ لیا جائے کہ وہ آزاد ہیں، اس سے بڑی بھول اور کیا ہو سکتی ہے۔ انگریزوں اور اہل کفر سے جس مقصد کے لیے آزادی حاصل کی تھی اگر 72 سال میں بھی ہم نے اس جانب ایک انچ بھی پیش رفت نہیں کی تو کیا ہم آزاد ہو گئے یا ایک غلامی سے نکل کر دوسری غلامی میں داخل ہو گئے۔
آپ فرماتے ہیں کہ ہم ’’ریاست مدینہ‘‘ تعمیر کر رہے ہیں۔ کیا یہ درست ہے، کیا ریاست مدینہ میں مسجدیں مسمار کی جاتی ہیں اور مندر و گردوارے تعمیر کیے جاتے ہیں، کیا ریاست مدینہ شراب خانوں کے لائسنس جاری کیا کرتی ہے، کیا ریاست مدینہ میں جسم فروش خواتین چوک چوراہوں پر برہنگی کا مظاہرہ کرتی ہیں، ٹی وی چینلوں پر خواتین بغیر دوپٹے اپنی زینتوں کی نمائش کرتی پھرتی ہیں اور غیر مردوں کے ساتھ ہنسی مذاق کیا کرتی ہیں۔ ریاست مدینہ کا کوئی ایک تقاضا بتایا جائے جو پاکستان میں پورا کیا جاتا ہو اور کوئی ایک قانون بتایا جائے جو ریاست مدینہ کا نمائندہ ہو۔
برگیڈیئر صاحب! پاکستان میں نہ تو وہ آزادی ہے جس کو آزادی کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی پاکستان جس مقصد کے لیے بنایا گیا تھا اس کا کہیں عملی نمونہ دکھائی دیتا ہے۔ آپ وفاقی وزیر داخلہ ہوتے ہوئے بھی پابندیوں کو آزادی اور ریاست میں کفر شرک جیسے بد اعمالیوں کے مظاہروں کو محمدعربیؐ کی ریاست مدینہ سے تشبیہ دینے سے پہلے کچھ تو لحاظ کریں اور سوچیں کہ آپ کے سب الفاظ حقیقت کے کتنے ترجمان ہیں۔ 72 سال گزر جانے کے باوجود بھی اگر ہمارا یہی حال ہے تو صرف ’’آدھے‘‘ ملک کے گنوا دینے پر ہی بات ختم نہیں ہو جائے گی بلکہ ملک کے صحیح سالم ہونے کے باوجود یہ ایک ایسا جسم بن کر رہ جائے گا جس میں سے روح نکل جاتی ہے۔ جس جسم میں سے روح نکل جائے وہ یا تو زمین برد کر دیا جاتا ہے یا پھر حنوط۔ اس لیے میں آپ سے اتنا ہی عرض ہے کہ
صرف باتیں ہیں کہ اعمال میں گوہر سے بھی ہو
جیسے باہر سے نظر آتے ہو اندر سے بھی ہو