پاک سعودی تعلقات کا پس منظر اور پیش منظر

442

سعودی عرب اور پاکستان میں ہر سطح پر باہمی اعتماد، خیرسگالی، محبت اور غیر معمولی برادرانہ تعلقات استوار رہے ہیں۔ امت مسلمہ کے مفادات کی نگہبانی اور اتحاد ان مضبوط برادرانہ تعلقات کی اہم بنیاد رہی ہے۔ حجاز مقدس کی خصوصی کشش دونوں برادر ممالک کے عوام کو شیر وشکر کرنے میں ایک روحانی وجہ ہے۔ سعودی عرب ہمیشہ سے پاکستان کا بڑا حامی وپشتیبان رہا ہے۔ موجودہ وزیر اعظم عمران خان اقتدار میں آئے تو بھی یہ سعودی عرب ہی تھا جس نے مدد کی پکار پر فوراً لبیک کہا۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ ’’پاکستان کو تاریخ میں کبھی بھی ایسی مشکل صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا، جہاںخسارے کی شرح مالی سال 2017 – 2018 کے لیے جی ڈی پی کے 6.6فی صد تک پہنچ گئی تھی‘‘۔ سعودی عرب نے پاکستان کو درپیش سنگین اور مالی امداد کا فوری ادراک واحساس کیا اور 6 ارب ڈالر مالیت کے پیکیج کا اعلان کیا۔ اس رقم میں سے نصف غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے تھی تاکہ پاکستان کے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کیا جائے۔ معاشی تجزیہ نگاروں کے مطابق عالمی مالیاتی فنڈ (آئی۔ ایم۔ ایف) کی بھی شرط تھی کہ زرمبادلہ کے ذخائر کو اس سطح پر لایا جائے جہاں پاکستان پر واجب الادا قرض ادائیگیوں کے توازن کو محفوظ بنایا جائے تاکہ مزید معاشی تعاون کی راہ ہموار ہوسکے اور ڈیفالٹ کا خطرہ ٹالا جاسکے۔ فروری 2019 میں شہزادہ محمد سلمان کے دورہ اسلام آباد کے موقع پر سعودی عرب کی جانب سے پاکستان میں مختلف شعبوں میں 20 ارب ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا گیا۔ یہ واضح اور معلوم حقیقت ہے کہ جب کوئی ملک آپ کو مالی تعاون فراہم کرتا ہے، یا غیرملکی ذخائر کے توازن کے لیے نقد رقوم دیتا ہے تو مروجہ طریقہ کار کے تحت یہ اقدام عمل میں آتا ہے۔ ایک خاص مدت تک یہ پیشکش متعین ہوتی ہے۔ قرض اور ترقیاتی امداد کی مد میں جمع رقوم متعلقہ شرائط کے مطابق واپس کی جاتی ہیں۔ حال ہی میں سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات پر میڈیا میں طوفان اٹھایا جارہا ہے۔ بعض نے موقع غنیمت جانا اور ’الزامات کی گرد آلود آندھیاں‘‘ چلا کر دو برادر ممالک کے برادرانہ تعلقات کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی کہ تنازع جموں و کشمیر کے معاملے پر سعودی عرب پاکستان کی حمایت نہیں کرتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ تجزیے، تبصرے اور بازی لیجانے کی ’’ابلاغی ہوس‘‘ نے ’’لکھاریوں‘‘ کو یہ بھی ’’عقل‘‘ نہ دی کہ قلمی گولہ باری کا نشانہ آپ کا قومی مفاد ہے۔ دوسری جانب سعودی بھائیوں کے نزدیک بھی یہ تاثر حقیقت پر مبنی نہیں۔ اس قسم کے نظریات اور خیالات غلط اور بے بنیاد ہیں۔ گزشتہ دو برس کے دوران بالخصوص تنازع جموں وکشمیر کے حوالے سے سعودی عرب کی جانب سے پاکستانی موقف کی حمایت کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ سچائی کیا ہے؟ اور افسانہ طرازی کتنی ہے؟ 2019 میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھنے اور جموں وکشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت کی افواج میں جھڑپوں کے آغاز کے ساتھ ہی خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز آل سعود نے اپنے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کو اسلام آباد بھجوا کر پاکستان کی حمایت اور یکجہتی کا اظہار کیا۔ اس حقیقت کا اعتراف خود پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات اور موجودہ حکومت کے ترجمان فواد چودھری نے 4 مارچ 2019 کو اپنے بیان کے ذریعے کیا کہ ’’سعودی عرب نے پاکستان اور بھارت کے مابین فوجی کشیدگی کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے‘‘۔ فواد چودھری نے ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے بیانات میں کہا کہ ’’سعودی عرب نے دیگر ممالک، جیسا کہ متحدہ عرب امارات اور امریکا کو متحرک کیا کہ بھارت کو پاکستان کے ساتھ تناؤ بڑھانے سے روکنے میں اپنا کردار ادا کریں‘‘۔5اگست 2019 کو بھارت نے غیرقانونی طورپر اپنے زیر قبضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے یک طرفہ اور غیرقانونی اقدامات کیے۔ بھارت نے اپنے آئین کی شق 370 اور 35 اے ختم کی تو اس پر ایک نیا طوفان برپا ہوا۔ اس صورتحال پر وزیراعظم عمران خان نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو فون کیا۔ سعودی عرب کی سرکاری پریس ایجنسی کی اطلاع کے مطابق ’’اس رابطے میں خطے میں ہونے والی پیش رفت اور کوششوں پر تبادلہ خیال کیا گیا جبکہ وزیراعظم عمران خان نے خطے میں کشمیر کی تازہ ترین صورتحال کے بارے میں آگاہ کیا‘‘۔ سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے تنازع جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی فیصلے پر بیان جاری کیا جس میں خطے کی صورتحال میں ہونے والی اس پیش رفت پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خطے کے عوام کے مفادات کو مدنظر رکھنے پر زور دیا گیا۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان تناؤ کی ایک نئی لہر ابھرنے کے بعد اسی سال ستمبر میں سعودی عرب کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ عادل الجبیر اور متحدہ عرب امارات (یو۔ اے۔ ای) کے وزیر خارجہ اسلام آباد آئے تاکہ ہندوستان اور پاکستان کے مابین تنازع پر قابو پایا جاسکے۔ ایک روزہ دورے کے دوران دونوں وزراء خارجہ نے وزیر اعظم عمران خان، وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی اور بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے علاوہ دیگر اہم حکومتی عہدیداران سے ملاقات کی۔ اس سے قبل وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی اپنے ’آفیشل اکاؤنٹ‘ پر ٹویٹ کرچکے تھے کہ ’’الجبیر اور عبداللہ بن زاید اسلام آباد پہنچ رہے ہیں تاکہ کشمیر کی خطرناک صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جاسکے‘‘۔
وزیر اعظم پاکستان کے آفس نے ایک بیان میں کہا کہ ’’دونوں وزرا خارجہ نے ملاقات کے دوران پاکستان کے ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات کی اہمیت پر زور دیا‘‘۔ انہوں نے موجودہ چیلنجز کا مقابلہ کرنے، تناؤ کم کرنے، اور ایسے ماحول کو فروغ دینے کے عزم میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حمایت کا اعادہ کیا جس سے امن و سلامتی کو یقینی بنایا جاسکے‘‘۔ ملاقات کے دوران وزیر اعظم عمران خان نے عالمی برادری پر زور دیا کہ ’’وہ تنازع جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے غیر قانونی اور جارحانہ اقدامات روکنے اور انہیں تبدیل کرانے کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالے‘‘۔ یہ خبر بھی میڈیا کے بعض حصوں میں نمایاں ہوئی کہ ’’سعودی عرب نے تنازع جموں و کشمیر کے معاملے پر اضافی اقدامات اٹھائے ہیں اور رواں سال کے آغاز میں سعودی عرب نے تنازع جموں وکشمیر پر بات کرنے کے لیے شوری کونسل کے اسپیکر کے ذریعے اسلامی ممالک کی پارلیمان کے سربراہان کی کانفرنس منعقد کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ اس سے عوامی اور سرکاری سطح پر قبولیت عام ملتی، یہ مسئلہ پوری شدت سے دنیا میں اجاگر ہوتا جس کے نتیجے میں بالخصوص اسلامی ممالک کی سطح پر نئے امکانات اور اقدامات کی راہیں ہموار ہوتیں۔ لیکن پاکستان کی جانب سے یہ تجویز مسترد کردی گئی جس پر سعودی عرب انگشت بدنداں رہ گیا۔ رواں سال اگست میں وزیراعظم عمران خان نے الجزیرہ چینل کو انٹرویو میں پاکستان کی مدد کرنے میں سعودی عرب کے کردار کو تسلیم کیا اور کہا کہ ’’سعودی عرب نے نہ صرف یہ کہ انتہائی مشکل معاشی بحران میں ہماری مدد کی بلکہ ماضی میں بھی جب کبھی پاکستان کو مشکل صورتحال کا سامنا ہوا، سعودی عرب ہماری مدد کرتا رہا ہے‘‘۔
ان کا مزید فرمانا تھا کہ ’’سعودی عرب ہمارے ان مشکل دنوں کا دوست ہے جن کا ہم نے سامنا کیا اور سعودی عرب میں تقریباً تیس لاکھ پاکستانی کام کر رہے ہیں‘‘۔ اسلامی تعاون تنظیم (او۔ آئی۔ سی) کے سعودی عرب کی گرفت میں ہونے کے تبصرے بھی سامنے آئے۔ یہ حقیقت پیش نظر رکھے بغیر الزامات کی یک طرفہ ژالہ باری کی گئی کہ یہ ایک خود مختار اسلامی بین الاقوامی تنظیم ہے جس کی سربراہی وقتاً فوقتاً مختلف اسلامی ممالک کی نامور شخصیات کرتی ہیں۔ یہ ادارہ سعودی عرب کے شہر جدہ میں واقع ہے۔ اس ادارے نے کشمیری عوام کی حمایت میں اپنا کردار ادا کیا۔ 1994 میں جدہ میں تنازع جموں و کشمیر پر رابطہ کمیٹی قائم کی گئی۔ یہ کمیٹی متواتر اجلاس منعقد کرتی ہے۔ آخری مرتبہ اس کا اجلاس 22 جون 2020 کو منعقد ہوا تھا۔ جموں وکشمیر سے متعلق او۔ آئی۔ سی رابطہ کمیٹی نے وزرائے خارجہ کی سطح پر اجلاس منعقد کیا جس میں سعودی عرب، پاکستان، آذربائیجان، ترکی اور نائیجر کے وزرائے خارجہ شریک ہوئے اور تنازع جموں وکشمیر کے منصفانہ حل کے لیے آواز بلند کی۔ پانچ اگست 2019 کے نئے تنازعے کے آغاز سے او۔ آئی۔ سی رابطہ کمیٹی نے مسئلہ کشمیر پر مجموعی طور پر تین اجلاس منعقد کیے۔ ان میں سے دو وزرائے خارجہ کی سطح پر تھے جن میں کشمیریوں کے جائز حقوق کی حمایت میں بھارت کے خلاف سخت بیانات جاری کیے گئے۔ شہدائے کشمیر سے متعلق ایک اور کمیٹی بھی قائم ہے جس کا اجلاس وقتاً فوقتاً جدہ میں منعقد ہوتا ہے۔ اس کمیٹی کا آخری مرتبہ اجلاس 13 جولائی 2020 کو ہوا تھا جس میں قونصل جنرل خالد مجید اور اسلامی تعاون تنظیم (او۔ آئی۔ سی) کے مستقل مندوب رضوان شیخ نے مہمانان خصوصی کے طور پر شرکت کی تھی۔ کشمیر کمیٹی کے ارکان بھی اس اجلاس میں شریک تھے۔ شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے قونصل جنرل خالد مجید نے کہا کہ جدہ میں کشمیر کمیٹی ایک موثر جہت ہے اور مسئلہ کشمیر کی آواز اٹھانے میں فعال کردار ادا کرتی ہے۔ اب ذرا اس امر کا جائزہ لینا چاہیے کہ تنازع جموں وکشمیر کے حوالے سے پاکستان کیا مطالبہ کر رہا ہے؟ اور اس کے مطالبے کی دیگر اسلامی دنیا کو کیا سمجھ میں آرہا ہے؟ پاکستان تنازع جموں وکشمیر کے پرامن اور منصفانہ حل کی حمایت کے اپنے موقف پر زور دیتا ہے اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قرار دادوں کے مطابق کشمیری عوام کے حقوق، امنگوں اور حق خودارادیت کی حمایت کرتا ہے۔ اس کا یہ موقف ہے کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی منصفانہ حل تلاش کیے بغیر جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن وسلامتی کا قیام ممکن نہیں، ایسا حل جو تنازع کے فریقین کے لیے قابل قبول ہو۔ پاکستان اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ بات چیت کے ذریعہ پرامن طریقے سے مسئلہ کا حل تلاش کیا جائے اور امید رکھتا ہے کہ بھارت بھی مثبت جواب دے گا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تصفیہ طلب مسائل کو پر امن طریقے سے حل کیا جاسکے جن میں سرفہرست مسئلہ کشمیر ہے۔ اب غور کرنے والی بات یہ ہے کہ کیا سعودی اور پاکستان کے موقف میں کوئی فرق ہے؟ در حقیقت سعودی عرب اور پاکستان کے خیالات، مطالبات اور تمام بیانات میں مکمل اتفاق رائے ہے۔ تنازع جموں وکشمیر پر پاکستان کے موقف، سیاسی و سفارتی ذرائع سے حل سمیت مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں پر عمل درآمد کے مطالبات کی سعودی عرب حمایت کرتا ہے۔ تجزیہ کرنے سے البتہ ایک بات ضرور واضح ہوتی ہے کہ سعودی عرب کی پالیسی ایک لحاظ سے مختلف ہے۔ جذبات اور سستی شہرت کی خاطر تیر اندازی نہیں کی جاتی۔ بھارت کے ساتھ لداخ میں کیا ہوا لیکن ان کی حکومت کے الفاظ اور بیانات کا ہم پاکستانیوں کو ضرور تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کہاں کی عقل مندی ہے کہ دوستوں میں اضافے کے بجائے انہیں اپنے ہی الفاظ کی آگ سے جھلس دیا جائے اور پھر شکوہ الزام بھی ان پر ہی دھر دیا جائے۔ کیا اسے دانائی پر مبنی سفارت کاری کہا جاسکتا ہے؟؟ سفارت کاری تو جوڑنے کا نام ہے۔ جہاں گنجائش نہ بھی دکھائی دے رہی ہوں، وہاں نئے امکانات کے در کھولے جاتے ہیں، روٹھے منائے جاتے ہیں، ابہام اور غلط فہمیاں دور کی جاتی ہیں۔ سفارت کاری زبان وبیان اور موقف پر اتفاق کی راہیں کھوجنے کا مشکل راستہ ہے۔ اس کے لیے غیرجذباتی پن، دانائی اور دور اندیش درکار ہے۔ وگرنہ نقصان ہمارا اپنا ہوتا ہے۔ ہر ملک اپنے مفاد اور نکتہ نظر سے مسائل اور امور دیکھتا ہے۔ یہی عالمی سفارت کاری کا مروجہ اصول ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ سعودی عرب کے اپنی خارجہ پالیسی اور ان کی قیادت کے عالمی وعلاقائی امور پر فہم ونظر کے بنیادی نکات کیا ہیں؟ سعودی قیادت تنگ نظر انفرادی مفادات یا کسی مخصوص نظریہ کی خاطر اسلامی اور عالمی امور کا استیصال کرنے کی کوشش نہیں کرتی۔ ان کے نزدیک وطن، اپنے بھائیوں اور دوستوں کے مفادات کو اولین ترجیح حاصل ہے۔ سابقہ عشروں میں سعودی عرب کی یہی پالیسی رہی ہے۔ اب اس پہلو پر بھی کچھ غور کرتے ہیں جو پاکستان کے ’او۔ آئی۔ سی‘ سے الگ ہونے یا متوازی نسبتاً چھوٹی تنظیم کی تشکیل کے کسی امکان کے بارے میں ہے۔ اس سے وقتی جذبات کی تسکین تو غالباً ہوجائے گی لیکن دانائی، دوراندیشی اور امت مسلمہ کے اجتماعی مفاد واتحاد کے بارے میں کئی سنگین مضمرات واثرات برآمد ہوں گے سب سے پہلا تاثر اسلامی ممالک کے اتحاد میں واضح دراڑ کی صورت میں ہمیں ایک بڑے نقصان کا سامنا کرنا ہوگا۔ اس کا مطلب اسلامی دنیا کی ایک ایسے مسئلے پر تقسیم ہے جس پر دراصل سفارتی وسیاسی لحاظ سے موقف ایک ہے۔ خود وزیراعظم عمران خان نے کشمیر پر پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں یہ بات کہی تھی کہ ’’بھارت کے ساتھ جنگ کوئی آپشن نہیں‘‘۔ کیا کوئی نیا اتحاد کشمیر کے معاملے پر بھارت کے ساتھ جنگ سے یہ مسئلہ سلجھائے گا؟ کیا یہ دانش مندی ہوگی کہ تنازع جموں وکشمیر پر اسلامی ممالک کی حمایت کو دانستہ اور خود تقسیم کا تاثر دے کر نقصان پہنچایا جائے؟ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوگا کہ کشمیر پر حمایت میں اضافے کے بجائے موجودہ حکومت نے نیا تنازع اور تقسیم کو جنم دے دیا ہے۔ کیا اس کے نتیجے میں پاکستان اور ہمارے کشمیری بھائی سب سے زیادہ متاثر نہیں ہوں گے؟ کیا اس کا سب سے زیادہ فائدہ بھارت کو نہیں ہوگا؟ دانش مند سفارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’شخصی وفروعی یا ممالک کے داخلی یا اندرونی سیاسی مفادات پر مبنی پاپولزم کے عکاس بیانات پر انحصار یقینا بڑی غلطی ثابت ہوتے ہیں۔ ایسے انداز پر یہ سمجھنا مزید حماقت ہے کہ ضرورت کے وقت ان پر بھروسا بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں ایک مثال یہ دی جارہی ہے کہ کچھ علاقائی ممالک اسرائیل کے خلاف سخت جذباتی بیانات دیتے ہوئے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ فلسطینیوںکی حمایت میں ایسا کرتے ہیں جو بظاہر دکھائی بھی دیتا ہے۔ لیکن حقیقت کی گہرائی میں اترا جائے تو یہ راز نہیں کہ ان ممالک کے صہیونی ریاست کے ساتھ مضبوط مراسم، سفارتی، تجارتی اور فوجی تعلقات بھی استوارہیں۔ کیا ہم توقع کر سکتے ہیں کہ ایسے ممالک فلسطین آزاد کرائیں گے؟ کچھ یہی انداز مسئلہ کشمیر کے معاملے میں بھی اپنایا جارہا ہے۔ حقیقت کیا ہے؟ کیا بیانات مقبوضہ خطوں کو آزاد کراسکتے ہیں؟ عملاً ایسا نہیں۔
پاکستان کے لیے سعودی حمایت نیا معاملہ نہیں۔ ہر پاکستانی دوسروں سے کہیں بہتر جانتاہے کہ دونوں ممالک میں یہ تعاون محض معیشت، تجارت اور سرمایہ کاری پہلو تک محدود نہیں بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر دفاع اور اسٹرٹیجک شراکت داری کے اہم ترین پہلووں تک وسیع ہے۔ دونوں برادر ممالک کے عوام کے مابین مضبوط اور قریبی تعلقات استوار ہیں۔ نہیں بھولنا چاہیے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کی سب سے بڑی تعداد میں میزبانی سعودی عرب کرتا ہے۔ ان محنت کش پاکستانی بھائیوں کے ذریعے پاکستانی معیشت کو سالانہ ساڑھے چار ارب کی ترسیلات زر ہوتی ہے۔ پاکستان ہمیشہ سے سعودی عرب کو ایک ایسا پر اعتماد دوست سمجھتا ہے جس پر ہر ضرورت اور آزمائش کے وقت وہ انحصار اور اعتماد کرسکتا ہے، اس کا سہارا لے سکتا ہے۔ سعودی عرب کی طرف سے بعض مواقع پر ایسا فوری جواب بھی مل جاتا ہے جو بعض اوقات توقعات سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے۔ دانائی کی راہ اپنائی جائے۔ سفارت کاری بچوں کا کھیل نہیں، دانائی اور دانش مندی کی راہ ہے۔