امیر جماعت اسلامی ٹھیک ہی کہتے ہیں

320

ایک ایسی حکومت جو اپنے وعدوں اور دعوں پر دس بیس فی صد بھی پیش قدمی کرنے میں کامیاب ہوجاتی تو پاکستان کی تقدیر ہی بدل کر رہ جاتی۔ روپیہ پوری دنیا میں مٹک مٹک کر چل رہا ہوتا، ڈالر شرمندگی کے مارے پاکستان میں منہ چھپانے کی جگہ تلاش کر رہا ہوتا، سونا اپنے نخرے بھول چکا ہوتا، پٹرول پانی بن گیا ہوتا، گیس اپنے سارے ناز و انداز بھلا چکی ہوتی، نوکریاں انسان تلاش کر رہی ہوتیں، مزدور کی تنخواہ بے شک 2 لاکھ روپے نہ بھی ہوتی تو کم از کم 40 ہزار ہوتی اور اشیائے صرف کی قیمتیں آسمان سے اتر کر زمین پر آجانے کی وجہ سے وہ 40 ہزار بھی ایک لاکھ کے برابر لگ رہے ہوتے۔ صرف دس بیس فی صد عمل ہوجانے پر یہ عالم ہوتا تو عمل درآمد اگر 100 فی صد ہوجاتا پھر نجانے لوگ زندہ بھی رہتے یا شادی مرگ کا شکار ہوکر دوسری دنیا سدھار گئے ہوتے۔
امیر جماعت سراج الحق نے بجا ارشاد فرمایا ہے کہ ’’پی ٹی آئی نے ہر شعبے میں ناکامی کی نئی داستانیں رقم کی ہیں‘‘۔ نوکریاں کروڑوں کے حساب سے دینی تھیں، لاکھوں لگی لگائی چھین لی گئیں۔ مکانات لاکھوں کے حساب سے تعمیر کرکے بے چھتوں کے لیے چھتیں مہیا کرنی تھیں، بنے بنائے گھر مسمار کر دیے گئے۔ کاروبار کو وسعت دینی تھی، بازار کے بازار ڈھا دیے گئے۔ ملک میں سڑکوں کے جال بچھانے تھے، جو تھیں ان کو بھی مینٹین نہیں رکھا جا سکا۔ اسٹیل مل کو دوبارہ فعال بنانا تھا، ملازمین کو بیک جنبشِ قلم نکال باہر کر دیا گیا۔ روپے کی قدر بڑھانی تھی، کاغذ کا پرزہ بن کر رہ گیا۔ کراچی کے حالات ٹھیک کرنے تھے، مونسپل کارپوریشن تک کو پاکستان کے سب سے مضبوط ادارے کے حوالے کرنا پڑگیا۔ ان سب حالات کو دیکھتے ہوئے امیر جماعت کو کہنا پڑا کہ عوام کو تنہا نہ چھوڑا جائے، مزدوروں، کسانوں اور غریبوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ ان کے لیے میدانِ عمل میں کودا جائے اور بڑے پیمانے پر تحریک چلائی جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم صاحب، آپ تو کہا کرتے تھے کہ اگر روپے کی قدر ایک روپیہ بھی گر جائے تو عوام سمجھ جائیں کہ حکومت چور ہے، یہاں تو عالم یہ ہے کہ ڈالروں کے پر لگ گئے ہیں اور روپیہ کاغذ کا ایک ٹکڑا بن کر رہ گیا ہے۔ آپ کا دعویٰ تو کروڑوں افراد کو نوکریاں دلانے کا تھا، آپ نے تو لگی لگائی نوکریاں بھی چین لی ہیں۔ پٹرول، گیس اور بجلی کے نرخ گرانے کی باتیں تھیں لیکن ہر آنے والا دن ان کے نرخوں کو آسمان کی جانب راکٹ سے بھی زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ بلند ہوتا دیکھ رہا ہے۔ صنعتوں اور تجارت کی ترقی کے خواب دکھائے گئے تھے لیکن صنعتی یونٹ بند پر بند ہوتے چلے جا رہے ہیں اور تاجر جیسا طبقہ بھی غریب عوام کی طرح سڑکوں پر احتجاج کرتا نظر آنے لگا ہے۔ ہر شے کی ارزانی و فراوانی کی ساری کی ساری باتیں ڈھول کا پول بن کر رہ گئی ہیں اور عالم یہ ہو گیا ہے کہ ملک کے لاکھوں خاندان نانِ شبینہ کو بھی ترس کر رہ گئے ہیں۔ باتیں سرکاری پروٹوکول کو ختم کرنے کی تھیں، عالم یہ ہو گیا ہے ایم این اے اور ایم پی اے تک کروفر کے ساتھ گھومنے لگے ہیں۔ کوئی ایک دعویٰ اور وعدہ بھی ایسا نہیں جس کے پورا کیے جانے کی کوئی امید دور دور تک دکھائی دے رہی ہو، جس سے عوام میں مایوسی و بے چینی کا اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جس کا سد باب بہت ضروری ہے۔
یہ باتیں صرف کسی ایک جماعت کی جانب سے نہیں کی جا رہیں، مخالف جماعتیں تو مخالفانہ باتیں کیا ہی کرتی ہیں، بہت ساری وہ جماعتیں جو حکومت کی اتحادی ہیں، وہ بھی گاہ بہ گاہ مایوسی کا اظہار کرتی دکھائی دے رہی ہیں اور پی ٹی آئی کے اندر بھی بے چینی کی ایک لہر پائی جاتی ہے جس کا اظہار مختلف قسم کی چیخ و پکار، ایک دوسرے سے گلہ و شکوہ اور اکثر موقعوں پر تلخ کلامی سے آگے نکلتی ہوئی باتوں سے ہوتا ہے۔ مختلف الخیال لوگوں کو غرض مندی نے ایک جگہ جمع تو کردیا لیکن ان کے دل ایک دوسرے سے ابھی تک قریب نہیں آ پائے جس کی وجہ سے نہ صرف حکومت بلکہ حکومت ساز بھی بہت پریشان نظر آ رہے ہیں اور کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ انجامِ کار کیا ہونے والا ہے۔
یہ ساری باتیں محض قیاسوں اور مخالفانہ سوچوں کی بنیاد پر نہیں کہی جا رہیں۔ آئے دن کابینہ کے میٹنگوں میں مچنے والے شور وغل اور ہر روز پٹرول، گیس، بجلی اور کھانے پینے کی عام اشیا کی قیمتوں میں اضافہ اس بات کا گواہ ہے کہ کوئی شعبہ حکومت کے دسترس میں نہیں رہا ہے اور ہر محکمہ اس کے ہاتھ سے باہر نکلتا چلا جا رہا ہے۔ حوالے کے طور پر آج ہی کی خبر ہے کہ بجلی کے فی یونٹ نرخوں میں اضافے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے جس سے سالانہ 177 ارب روپے اضافی وصول کیے جائیں گے۔ ہر ماہ پٹرولیم مصنوعات کی نرخوں میں اضافہ تو کیا ہی جاتا ہے، اب بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آنے لگا ہے۔ ایک جانب سستی بجلی پیدا کرنے کے خواب دکھائے جا رہے ہیں تو دوسری جانب فی یونٹ اضافے کا اعلان اس بات کا ثبوت فراہم کر رہا ہے کہ حکومت جو بھی اعلان کرتی ہے، آنے والا دن اس کا برعکس دکھا رہا ہوتا ہے۔
یہ ساری صورت حال امیر جماعت کی اس بات کی تائید کرتی نظر آتی ہے کہ عوام کو بیدار کیا جائے تاکہ حالات قابو سے بالکل باہر ہی نہ ہوجائیں اور پاکستان ایسے دوراہے پر جاکر کھڑا ہو جہاں سے واپسی ہی ممکن نہ رہے۔