اطہر ہاشمی اور جسارت

290

کسی ماہر صحت کا کہنا ہے کہ خواتین کی پچاس اور مردوں کی ساٹھ سال کی زندگی کے بعد کی عمر بونس ہوتی ہے۔ اور یہ بات تو سامنے کی ہے بونس کے مزے ہر ایک کی قسمت میں نہیں ہوتے۔ بلکہ جن کی قسمت میں ہوتے ہیں اُن کو بھی کم کم ہی ملتے ہیں۔ ساٹھ سال کے بعد سٹھیانے کی عمر شروع ہوتی ہے تو کبھی جسم و جان قابو میں نہیں ہوتا اور کبھی دماغ۔ لیکن کچھ اللہ کے بندے ایسے ہوتے ہیں جن کو اللہ اپنی ساری برکتیں آخری وقت تک عطا کیے رکھتا ہے۔ محترم اطہر ہاشمی کے بارے میں اگر یہ بات کہی جائے تو غلط نہ ہوگا۔ وہ 74 سال کے جوان تھے۔ آخر تک جسارت کے آفس تشریف لاتے رہے۔ لاک ڈائون اور کورونا کے مسائل چلتے رہے لیکن وہ اپنی ذمے داریاں نبھاتے رہے کہ دو چار دن بعد وہ موجود ہوتے۔ شاید ہی طویل غیر حاضری کبھی ہوئی ہو، یہ کہ وہ شہر ہی میں نہ موجود ہوں۔ لاک ڈائون اور کورونا میں بھی جسارت میں ان کی موجودگی رہی یہ اُن کی جسارت سے محبت تھی۔ گویا ان کا کہنا تھا کہ
موت آجائے وبا میں یہ الگ بات مگر
ہم ترے ہجر میں ناغہ تو نہ ہونے دیں گے
ان سے بات کریں یا ملاقات ان کی سادگی اور بے تکلفی آنے جانے والے پر اثر ڈال کر رہتی۔ جسارت میں اُن کا آفس سادگی کا مظہر تھا یعنی اگر کوئی نہ بتائے کہ یہ چیف ایڈیٹر کا کمرہ ہے تو آنے والا نہیں سمجھ سکتا تھا کہ اُن کا دفتر ہے۔ ہر خاص و عام کے لیے کھلا ایک میز ایک کرسی سامنے ملاقاتیوں کے لیے دو تین کرسیاں گنجائش اور آنے والوں کے لحاظ سے ان میں اضافہ اور کمی ہوتی رہتی، پیچھے چند کتابوں کے ڈبے یعنی جگہ نہ ہونے کے باعث ڈبے پہ ڈبہ۔ میز پر اخبارات اور کالموں کا ڈھیر ساتھ ہی مختلف رسالوں کے دو تین مینار جن کے درمیان فون اور انٹرکام کے سیٹ پھنسے ہوئے۔ یعنی نہ بند دیواریں اور نہ شیشوں کے دروازے نہ اجازت اور دربان و قاصد کے ششکے۔
سعودی عرب سے واپس آنے کے بعد جسارت سے یوں وابستہ ہوئے کہ پھر دوسرے اداروں کی طرف سے آنے والی کسی بھی آفر پر توجہ نہ دی۔ وہ صحیح معنوں میں صحافیوں کے لیے استاد تھے۔ جسارت تو یوں بھی لکھنے والوں کے لیے نرسری کی طرح ہے۔ انہوں نے اس نرسری کے فرض شناس مالی کا کردار بخوبی نبھایا۔ اپنے تربیت یافتہ صحافیوں اور لکھنے والوں کی قطاروں کی قطاریں منظم کیں، وہ حقیقت میں ایک مشفق استاد اور راہ نما کی حیثیت رکھتے تھے۔
اگرچہ ایسا کم ہی ہوتا تھا کہ ہماری موجودگی میں وہ بھی آفس میں موجود ہوں کہ ہم صبح ہوتے اور وہ سہ پہر میں آتے اور رات گئے واپس جاتے۔ لیکن اب یہ بات ہی دل میں سناٹا سا کردیتی ہے کہ وہ اب جسارت کے آفس میں نہیں ہوں گے بلکہ یوں کہ اب وہ یہاں نہیں ہوں گے۔ یقینا بہتر مقام پر ہوں گے لیکن جسارت کے آفس میں ایک شخص کے جانے سے یوں جسارت ہی نہیں دنیائے اردو بھی ویران محسوس ہوگی اندازہ نہ تھا۔ یقینا اردو کے ہر شیدائی کو ان کی کمی برسوں محسوس ہوگی۔ اردو کے طالب علموں کے لیے وہ ایک ایسے استاد تھے جو اپنی جگمگاہٹ سے راستہ دکھاتے تھے۔ خواہ بڑے ہوں یا چھوٹے… بڑوں کے لیے ’’خبر لیجیے زباں بگڑی‘‘ کے عنوان سے اور بچوں کے لیے ’’اردو زباں ہماری‘‘ کے عنوان سے مستقل کالم لکھتے تھے۔ یہ کالم بہت مقبول تھا۔ بھلا اب کون خبر لے گا اور کس کو احساس ہوگا کہ زباں بگڑی ہے۔ اور بگڑتی چلی جارہی ہے۔ اردو سے انہیں محبت تھی اور یہی محبت تھی کہ وہ اس سے بُرا سلوک برداشت نہیں کرتے تھے۔ مذکر مونث معنی اور الفاظ میں خود ساختہ اضافے وہ فوراً پکڑ لیتے۔ ایک زمانے میں جب ہمیں کالم لکھنے کا شوق چھوٹا دراصل ہوا یہ کہ مختلف رسالوں کی لالچ میں اکثر اُن کی غیر موجودگی میں ان کے کمرے کا چکر لگاتے اور رسالے لے آتے بعد میں اجازت خاص لے لی تھی ایک دفعہ وہاں کالم کے ڈھیر دیکھے پڑھ کر اندازہ ہوا کہ ہم بھی لکھ سکتے ہیں۔ لہٰذا کالم لکھنے کا آغاز کیا۔ انہوں نے حوصلہ افزائی کی اور ہمارے الفاظ کی درستی کا بیڑہ اُٹھایا۔ عراق کو عیراق لکھنے پر ناراض ہوتے کہتے آپ کے پاس ’’ی‘‘ بہت زیادہ ہے۔ ان کے بتانے کے باوجود کبھی غلطی سے اسی طرح لکھ دیتے تو شفقت سے فون پر بتاتے لیکن غصہ نہیں کرتے۔ ہم بھی بلاروک ٹوک الفاظ کے معنی پوچھتے اور کبھی کسی لفظ کو باریکی سے سمجھاتے ایک دفعہ ایک لفظ ’’منیاری‘‘ ہمیں بہت بھایا لگا جیسے کلاسک ادب کا کھویا ہوا لفظ ہے۔ یہ تو پتا تھا کہ منیاری کی دکان ہوتی ہے۔ لیکن خاص طور سے کسی چیز کی ہوتی ہے یہ نہیں اندازہ تھا۔ اب اس لفظ کو اپنے افسانے میں استعمال کرنا تھا۔ لیکن جب تک مکمل معنی معلوم نہ ہوں کیسے کریں۔ خیال آیا کہ اطہر صاحب کو فون ملانا چاہیے۔ انہوں نے فوراً مسئلہ حل کردیا۔ بتایا خواتین کی آرائش اور ضرورت کی اشیا کی دکان ہوتی ہے۔
ہاشمی صاحب لغت کے استعمال کی طرف خاص توجہ دلاتے تھے یعنی الفاظ کے بارے میں بتاتے تھے جو اُن سے پوچھے جاتے تھے لیکن ساتھ ہی کہتے کہ لغت پر بھی نظر ڈال لیں۔ یہ حقیقت ہے کہ لغت اردو لکھنے پڑھنے اور سیکھنے کے لیے بہت کارآمد ہے۔
کسی بھی زبان کے بولنے والے کے لیے یہ بات سب سے اہم ہوتی ہے کہ ہر لفظ کو صحیح طور سے ادا کیا جائے اور لکھنے کے لیے صحیح ہجے کے ساتھ لکھا جائے لیکن آج کل اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی بلکہ غلط اردو پر کچھ لوگ شرمندہ ہونے کے بجائے فخر کرتے ہیں۔ رہی سہی کثر رومن اردو نے پوری کردی ہے۔ اس صورت حال پر انہیں دُکھ تھا جس کا اظہار کرتے رہتے تھے۔ یقینا اردو زبان اور صحافت کے میدان میں ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ ان کے تربیت یافتہ تمام صحافیوں اور شاگردوں کو اطہر ہاشمی کی خواہش کا پاس رکھتے ہوئے اردو کے تلفظ، ہجوں اور گرامر کا شعوری طور پر دھیان رکھنا چاہیے۔ یہ اُن کا علمی صدقہ جاریہ ہے۔ اللہ ان پر اور ان کے متعلقین پر رحمتوں کی بارش برسائے، آمین۔