سلامت صاحب پر اللہ کی سلامتی ہو

556

یہ مئی 1998 کا زمانہ تھا۔ ایک دھماکا تو پاکستان نے ایٹم بم کے نام سے کیا اور دوسرا ہم نے امریکا سے واپسی پر۔ لوگ حیران تھے کہ امریکا جا کر کوئی واپس نہیں آتا۔ مگر آپ کس مٹی کے ہیں کہ واپس آگئے وہ بھی ہزاروں ڈالر کی جاب چھوڑ کر۔۔۔ ہم نے کہا کہ بھائی ہم اسی پاکستان کی مٹی سے ہیں اور اس کی خوشبو ہمیں کہیں اور رہنے نہیں دیتی۔
دل دل پاکستان، جان جان پاکستان
ایسی زمیں اور آسماں ان کے سوا جانا کہاں
چونکہ ہم ایک بڑے بینک سے گولڈن ہینڈ شیک کر کے گئے تھے لہٰذا واپسی کسی نجی ادارے ہی میں ہو سکتی تھی۔ پس ایک نجی سوفٹ وئر ہائوس میں پروجیکٹ مینیجر کی ملازمت کی اور ساتھ ہی کسی نجی بینک میں ملازمت کی کوشش کرتے رہے۔ بالآخر ایک بڑے نجی بینک کے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ میں نوکری ہوگئی۔ جہاں سے اب ہم باعزت ریٹائر ہوچکے ہیں۔
ان دنوں کسی وجہ سے ہمیں شیاٹیکا کا مرض لاحق ہوگیا۔ جس کی وجہ سے نہ صرف درد میں اضافہ ہوتا گیا بلکہ ہماری دائیں ٹانگ بھی سن ہوتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ ہم وہیل چیئر اور بستر پر آگئے۔ آدھا دھڑ سن کی کیفیت سے دوچار تھا۔ درد اتنا شدید تھا کہ روزآنہ درجنوں پین کلرز اور نیند کی گولیاں کھانے کے باوجود نہ چین آتا تھا نہ ہی نیند آتی تھی۔
یوں بنی ہیں رگیں جسم کی
ایک نس۔ ٹس سے مس۔ اور بس
اس مصور کا ہر شاہکار
ساٹھ پینسٹھ برس اور بس
سب تماشائے کن ختم شد
کہہ دیا اس نے بس اور بس
خیر جب پانی سر سے اونچا ہوگیا تو ہم نے سب کے مشورے سے پاکستان کے بہت ہی بڑے نیورو سرجن ڈاکٹر آئی ایچ بھٹی صاحب کو دکھایا۔ انہوں نے نہ صرف ہمارا ایکسرے دیکھا بلکہ ہمیں ٹھوک بجا کر بھی دیکھا اور فرمایا کہ آپ فوراً لیاقت نیشنل اسپتال میں داخل ہوجائیں اور فوری۔ MRI کرائیں۔ آپ کا دو دن کے اندر آپریشن کرنا ہے ورنہ اندیشہ ہے کہ آپ زندگی بھر کے لیے مفلوج نہ ہوجائیں۔
ان کی پرچی پر ہمارے سارے کام فوراً ہوگئے دو دن بعد شام تین بجے سے رات آٹھ بجے تک ہمارا آپریشن ہوا۔ اس سے پہلے ایک لیڈی ڈاکٹر نے باتوں باتوں میں ہمارے انجیکشن لگایا۔ ہم نے کہا یہ کیا ہے۔ کہنے لگیں بے ہوشی کا انجیکشن ہے کیونکہ آپ بولتے بہت ہیں۔ ہم نے کہا آپ کے ہوتے ہوئے اس کی کیا ضرورت تھی۔ ہم تو ویسے ہی بے ہوش ہونے والے تھے۔ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ خیر ہم جب ہوش میں آئے تو ریکوری روم میں تھے۔ یہاں کوئی نیب کا ریکوری روم نہ سمجھے۔ اس کے بعد ہم کمرے میں شفٹ کردیے گئے۔ الحمدللہ ہوش میں آتے ہی محسوس ہوا کہ آپریشن کامیاب ہوچکا ہے کیونکہ درد بھی غائب تھا اور سن کی کیفیت بھی کافی کم ہوچکی تھی۔ اور آخر دو دن بعد ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا کردیا بلکہ چلا بھی دیا۔ آہستہ آہستہ ہم مکمل صحتیاب ہوکر گھر شفٹ ہوگئے۔
مگر ابھی عشق کے امتحاں اور بھی تھے۔ ہوا یوں کہ اس دوران ہم نے جو پین کلرز اور نیند کی گولیاں حد سے زیادہ استعمال کرلی تھیں۔ انہوں نے اپنا رنگ دکھایا اور ان کی وجہ سے ہمارے بائیں طرف پتھری ہوگئی۔ چونکہ پتھری چھوٹی تھی اس لیے اس کی اٹکھیلیوں نے دوبارہ ہماری زندگی تکلیف دہ بنادی۔ لہٰذا ہم گزشتہ بیماری کو بھول کر اس طرف متوجہ ہوئے کہ اس نئی آزمائش سے کیسے عہدہ براء ہوں۔ جب ہماری تکلیف حد سے بڑھی تو ہمارے آفس کے دوست ریاض الدین نے ہمیں ایک نابغہ روزگار شخصیت کے پاس بھیجا جن کا نام تھا سلامت اللہ خاں۔ ہم تکلیف کے مارے تھے لہٰذا ہم نے رات دس بجے ہی ان کے گھر پر دستک دے دی۔ اندر سے ایک انتہائی بزرگ اور بہت ہی خوبصورت اور پرنور چہرے والے صاحب برآمد ہوئے اور بہت ہی خندہ پیشانی سے پیش آئے۔ ہم نے معذرت کی کہ اتنی رات کو ان کو زحمت دی۔ مسکرا کر کہنے لگے تکلیف اور ضرورت رات دن نہیں دیکھتی۔ ہمیں عزت سے ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور خود اندر جاکر وضو کیا۔ ٹوپی پہنی اور بڑے مشفقانہ انداز سے ہمارے درد کی جگہ پر دایاں ہاتھ رکھا اور تین مرتبہ آنکھ بند کرکے کچھ پڑھ کر دم کیا اور تینوں مرتبہ ہم نے محسوس کیا کہ وہ مراقبہ کی کیفیت میں ہیں اور ان پر جھر جھری سی طاری ہوجاتی ہے۔ خیر وہ دن اور آج کا دن تقریباً 22 سال ہوگئے دوبارہ تکلیف نہ ہوئی۔ اس کے بعد نہ صرف ہم ان کے گرویدہ اور مرید ہوگئے۔ بلکہ ہم نے رشتہ داروں اور حلقہ ٔ احباب میں بھی ان کو متعارف کرادیا اور یوں ہمارے واسطے سے بہت سے لوگ فیضیاب ہوئے۔ اب ہمارا تعلق دوستی میں بھی بدل چکا تھا حالانکہ وہ ہمارے والد کے برابر تھے۔ اس وقت بھی ان کی عمر ستر سال سے زائد تھی۔ جب تعلقات بڑھے تو ہمیں پتا چلا کہ کسی بزرگ نے انہیں بچپن میں یہ دم عطیہ کیا تھا جب کہ ان کی عمر دس سال کے لگ بھگ تھی۔ اور اس وقت سے لیکر مرتے دم تک آپ نے یہ ذمے داری نہایت خوش اسلوبی سے نبھائی۔ ماشاء اللہ انہوں نے 90 برس سے زائد عمر پائی۔ آپ کا تعلق انڈیا کے شہر رامپور سے تھا۔ ہر طرح کے مریض خصوصاً پتھری کے مریض چوبیس گھنٹے ان کے گھر کے چکر لگاتے تھے وہ چونکہ ایک نجی ادارے میں ملازمت بھی کرتے تھے لہٰذا اکثر لوگ رات کو انہیں زحمت دیتے تھے۔ مگر کبھی ان کی پیشانی پر بل نہ آیا۔ یہ کام وہ فی سبیل اللہ کرتے تھے یہاں تک کہ بعض اوقات مریض آنے کے قابل نہ ہوتا تو وہ خود اس کے گھر جاتے اور دم کرتے تھے۔ تقریباً 80 سال تک وہ یہ کام کرتے رہے۔ یوں ہزاروں لاکھوں لوگ ان سے فیضیاب اور شفایاب ہوئے۔
ان کا حلقہ احباب بھی بہت وسیع تھا۔ جس کی وجہ سے اکثر لوگ ان سے دوسرے مسائل میں بھی نہ صرف مشورہ کرتے بلکہ ان کے حلقہ احباب کے ذریعے سے ان کی سفارش پر فی سبیل اللہ کام بھی کراتے تھے۔ خود ہمیں بھی بہت سے ذاتی نوعیت کے مسائل میں ان کے مشورے، رہنمائی بلکہ عملی مدد بھی میسر رہی۔ ہماری بیٹی صفیہ مریم کی شادی میں شریک ہوئے اور ہمارے گھر آکر دعائیں دیں۔ صفیہ نے بھی اپنے ہاتھ سے بنائی ہوئی آیت الکرسی کی گلاس پینٹنگ ان کو ہدیہ کی۔ جب اس کی رخصتی لندن ہونے لگی تو ان دنوں کراچی میں سیکورٹی کے مسائل بھی تھے اور خصوصاً ائر پورٹ آنے جانے والے مسافروں کو لوٹ لیا جاتا تھا۔ ایسے میں سلامت صاحب ہی ہمارے کام آئے۔ انہوں نے پولیس نفری مع افسران اور موبائل ہمارے گھر بھیج دی اور ہم نے پوری حفاظت میں اپنی بیٹی کو ائرپورٹ پر الوداع کیا۔
(جاری ہے)
سلامت صاحب کی ایک خوبی اور تھی کہ ان کی بیگم کم از کم دس سال سے زائد بیماری کی وجہ سے بستر پر رہیں۔ سلامت صاحب کا معمول تھا آفس جانے سے پہلے صبح بیگم کی خدمت کرتے۔ انہیں کھانا اپنے ہاتھ سے کھلاتے۔ اس کے بعد دفتر جاتے۔ اور دوپہر میں دوبارہ گھر آتے اور بیگم کو کھانا کھلاتے اور واپس دفتر جاتے۔ اور شام کو دفتر سے واپسی پر بھی ایساہی کرتے۔ یہی وجہ تھی کہ بیگم بھی ان کے علاوہ کسی دوسرے کے ہاتھ سے کھانا نہیں کھاتی تھیں۔
سلامت صاحب کی ایک بیٹی بائیولوجی میں پی ایچ ڈی ہیں اور مسقط میں سلطان قابوس یونیورسٹی میں پروفیسر اور ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ہیں۔ کبھی کبھی ان سے ملنے مسقط بھی جاتے تھے۔ ان کے ایک صاحبزادے کینیڈا میں بڑے بزنس مین ہیں اور حکومت کی طرف سے ٹاپ ایکسپورٹر کا ایوارڈ بھی جیت چکے ہیں۔ وہ کبھی کبھی کینیڈا بھی جایا کرتے تھے۔
اسی دوران ان کے گھٹنوں میں بہت تکلیف بڑھ گئی تو سائوتھ سٹی اسپتال کلفٹن میں بھی داخل رہے اور وہاں ان کا گھٹنا بھی تبدیل کیا گیا۔ مگر مصنوعی گھٹنا بھی بہت جلد جواب دے گیا۔ لہٰذا انہوں نے دوسرے گھٹنے کی تبدیلی کا خیال ترک کردیا۔ اس دوران وہ کافی تکلیف سے گزرے۔ ہم نے ان سے کہا بھی کہ اب آپ کی عمر اور صحت دونوں جواب دے رہی ہیں اب آپ آرام کریں۔ تو کہنے لگے ملازمت تو میں فٹ رہنے کے لیے کرتا ہوں۔
ایک دن موقع پاکر ہم نے ان سے درخواست کر ہی ڈالی کہ اب آپ کی صحت اور عمر دونوں جواب دے رہی ہیں اور موت سے بھی کسی کو مفر نہیں۔ آپ 70، 80 سال سے لوگوں کو فیض پہنچارہے ہیں مگر ایک نہ ایک دن یہ سلسلہ منقطع ہو نے والا ہے۔ آپ کے بعد کیا ہوگا۔ کیوں نہ آپ یہ وظیفہ اپنے بیٹوں کو عطیہ کردیں تاکہ یہ صدقہ جاریہ جاری و ساری رہے۔ کہنے لگے کہ میں نے بیٹوں سے بات کی تھی مگر انہوں نے کانوں کو ہاتھ لگایا کہ یہ کام ہمارے بس کا نہیں۔ ہم نے ساری زندگی آپ کو لوگوں کو خندہ پیشانی سے فیض پہنچاتے دیکھا ہے اور بہت صبر برداشت اور حوصلے سے کام لیتے دیکھا ہے۔ آپ نے ہمیشہ حسن اخلاق کا مظاہرہ کیا ہے اور کبھی آپ کے ماتھے پر شکن نہ آئی مگر ہم اس کے متحمل نہیں ہوسکتے اور ہم اس ذمے داری کو نبھانے سے قاصر ہیں۔
خیر ہم نے کہا کہ اگر ایسی بات ہے تو آپ ہماری ایک مینارہ مسجد عزیزآباد کے خطیب۔ مفتی۔ حافظ اور امام صاحب کو یہ وظیفہ عطیہ کردیں۔ ہمارے خیال میں وہ اس کام کے لیے موزوں رہیں گے۔ سلامت صاحب کی مجھ پر یہ عنایت رہی کہ انہوں نے میرے ساتھ مسجد آکر مفتی صاحب کو وظیفہ ایک بند لفافے میں عطیہ کردیا اور اب ہمارے مفتی صاحب بھی اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچارہے ہیں۔
افسوس کہ کورونا اور لاک ڈاون کی وجہ سے ان سے رابطہ برقرار نہ رہ سکا اور ایک دن ریاض صاحب جنہوں نے سلامت صاحب سے ہمیں ملوایا تھا۔ واٹس ایپ پر اطلاع دی کہ سلامت صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں اور ان کی پھولوں سے ڈھکی قبر کی تصویر بھی شیئر کی۔ ہم نے ریاض بھائی سے گلا کیا کہ آپ نے ہمیں بروقت اطلاع کیوں نہ دی۔ ہم بھی جنازے میں شرکت کرلیتے۔ ریاض بھائی نے کہا کہ خود انہیں دو دن کے بعد اطلاع ملی ہے۔
ریاض بھائی لاہور میں رہتے ہیں وہ کراچی آئے اور سلامت صاحب کی قبر پر ان کے لیے دعا کی۔ سلامت صاحب نہ صرف ہمارے بلکہ ہمارے جیسے بے شمار لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں۔ اور ہم سب کی دعائوں میں ہمیشہ شامل رہیں گے۔ کیونکہ انہوں نے خاموشی۔ خندہ پیشانی اور محبت کے ساتھ فی سبیل اللہ 80 برس سے زائد انسانیت کی خدمت کی ہے۔ اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام عطافرمائے۔ آمین ثمہ آمین