سلامت صاحب پر اللہ کی سلامتی ہو )آخری حصہ(

260

سلامت صاحب کی ایک خوبی اور تھی کہ ان کی بیگم کم از کم دس سال سے زائد بیماری کی وجہ سے بستر پر رہیں۔ سلامت صاحب کا معمول تھا آفس جانے سے پہلے صبح بیگم کی خدمت کرتے۔ انہیں کھانا اپنے ہاتھ سے کھلاتے۔ اس کے بعد دفتر جاتے۔ اور دوپہر میں دوبارہ گھر آتے اور بیگم کو کھانا کھلاتے اور واپس دفتر جاتے۔ اور شام کو دفتر سے واپسی پر بھی ایساہی کرتے۔ یہی وجہ تھی کہ بیگم بھی ان کے علاوہ کسی دوسرے کے ہاتھ سے کھانا نہیں کھاتی تھیں۔
سلامت صاحب کی ایک بیٹی بائیولوجی میں پی ایچ ڈی ہیں اور مسقط میں سلطان قابوس یونیورسٹی میں پروفیسر اور ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ہیں۔ کبھی کبھی ان سے ملنے مسقط بھی جاتے تھے۔ ان کے ایک صاحبزادے کینیڈا میں بڑے بزنس مین ہیں اور حکومت کی طرف سے ٹاپ ایکسپورٹر کا ایوارڈ بھی جیت چکے ہیں۔ وہ کبھی کبھی کینیڈا بھی جایا کرتے تھے۔
اسی دوران ان کے گھٹنوں میں بہت تکلیف بڑھ گئی تو سائوتھ سٹی اسپتال کلفٹن میں بھی داخل رہے اور وہاں ان کا گھٹنا بھی تبدیل کیا گیا۔ مگر مصنوعی گھٹنا بھی بہت جلد جواب دے گیا۔ لہٰذا انہوں نے دوسرے گھٹنے کی تبدیلی کا خیال ترک کردیا۔ اس دوران وہ کافی تکلیف سے گزرے۔ ہم نے ان سے کہا بھی کہ اب آپ کی عمر اور صحت دونوں جواب دے رہی ہیں اب آپ آرام کریں۔ تو کہنے لگے ملازمت تو میں فٹ رہنے کے لیے کرتا ہوں۔
ایک دن موقع پاکر ہم نے ان سے درخواست کر ہی ڈالی کہ اب آپ کی صحت اور عمر دونوں جواب دے رہی ہیں اور موت سے بھی کسی کو مفر نہیں۔ آپ 70، 80 سال سے لوگوں کو فیض پہنچارہے ہیں مگر ایک نہ ایک دن یہ سلسلہ منقطع ہو نے والا ہے۔ آپ کے بعد کیا ہوگا۔ کیوں نہ آپ یہ وظیفہ اپنے بیٹوں کو عطیہ کردیں تاکہ یہ صدقہ جاریہ جاری و ساری رہے۔ کہنے لگے کہ میں نے بیٹوں سے بات کی تھی مگر انہوں نے کانوں کو ہاتھ لگایا کہ یہ کام ہمارے بس کا نہیں۔ ہم نے ساری زندگی آپ کو لوگوں کو خندہ پیشانی سے فیض پہنچاتے دیکھا ہے اور بہت صبر برداشت اور حوصلے سے کام لیتے دیکھا ہے۔ آپ نے ہمیشہ حسن اخلاق کا مظاہرہ کیا ہے اور کبھی آپ کے ماتھے پر شکن نہ آئی مگر ہم اس کے متحمل نہیں ہوسکتے اور ہم اس ذمے داری کو نبھانے سے قاصر ہیں۔
خیر ہم نے کہا کہ اگر ایسی بات ہے تو آپ ہماری ایک مینارہ مسجد عزیزآباد کے خطیب۔ مفتی۔ حافظ اور امام صاحب کو یہ وظیفہ عطیہ کردیں۔ ہمارے خیال میں وہ اس کام کے لیے موزوں رہیں گے۔ سلامت صاحب کی مجھ پر یہ عنایت رہی کہ انہوں نے میرے ساتھ مسجد آکر مفتی صاحب کو وظیفہ ایک بند لفافے میں عطیہ کردیا اور اب ہمارے مفتی صاحب بھی اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچارہے ہیں۔
افسوس کہ کورونا اور لاک ڈاون کی وجہ سے ان سے رابطہ برقرار نہ رہ سکا اور ایک دن ریاض صاحب جنہوں نے سلامت صاحب سے ہمیں ملوایا تھا۔ واٹس ایپ پر اطلاع دی کہ سلامت صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں اور ان کی پھولوں سے ڈھکی قبر کی تصویر بھی شیئر کی۔ ہم نے ریاض بھائی سے گلا کیا کہ آپ نے ہمیں بروقت اطلاع کیوں نہ دی۔ ہم بھی جنازے میں شرکت کرلیتے۔ ریاض بھائی نے کہا کہ خود انہیں دو دن کے بعد اطلاع ملی ہے۔
ریاض بھائی لاہور میں رہتے ہیں وہ کراچی آئے اور سلامت صاحب کی قبر پر ان کے لیے دعا کی۔ سلامت صاحب نہ صرف ہمارے بلکہ ہمارے جیسے بے شمار لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں۔ اور ہم سب کی دعائوں میں ہمیشہ شامل رہیں گے۔ کیونکہ انہوں نے خاموشی۔ خندہ پیشانی اور محبت کے ساتھ فی سبیل اللہ 80 برس سے زائد انسانیت کی خدمت کی ہے۔ اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام عطافرمائے۔ آمین ثمہ آمین