ڈھاکا سے کراچی ڈوبنے تک

324

مون سون کی برسات نے کراچی کو جل تھل کر ڈالا، بارش نے اس شہر کا مینڈیٹ رکھنے والی پیپلزپارٹی ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کی کار کردگی کو عوام کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے ساتھ ہی اس ملک کے غریب عوام پر مسلط کے۔ الیکڑک نے بھی اس برسات میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، پہلی بوند گرتے ہی لوڈ شیڈنگ کر کے لوگوں کی پریشانی میں اضافہ کر دیا گیا۔
کورونا کی آڑ میں سندھ حکومت جو ہر روز انسانی زندگیوں کو بچانے کا درس دیتی رہی چیئرمین پیپلزپارٹی جو معیشت کی تباہی سے زیادہ غریب کی زندگی کو بچانے کے لیے فکر مند تھے کہاں ہیں؟ آج جب کراچی ان نااہل حکمرانوں کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ برسات نے کراچی شہر کا پورا نظام تباہ برباد کر دیا ہے کئی علاقوں میں لوگ برسات کی وجہ سے بے گھر اور ہزاروں لوگ بھوک سے پریشان طویل لوڈشیڈنگ کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ بے حسی کا عالم تو یہ ہے کہ اس وقت اس شہر کا مینڈیٹ رکھنے والی تینوں جماعتیں سیاست سیاست کھیل رہی ہیں۔ کراچی میں غیر قانونی تعمیرات کا معاملہ ہو، پینے کے صاف پانی کا معاملہ ہو، لاپتا افراد کا معاملہ ہو، لوڈشیڈنگ کا معاملہ ہو یا جعلی پولیس مقابلوں کا معاملہ، ہر معاملے پر معزز عدالتوں نے حکم جاری کیے مگر بدقسمتی سے اس وقت تک ان تمام معاملات میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں ہوسکا جس سے عدالتوں کی بے بسی کھل کر نظر آئی۔
کراچی شہر میں ڈوب گیا ہے جس کے مسائل کے حل پر اس وقت بھی سیاست کی جارہی ہے کراچی کا ایک ایڈمنسٹریٹر لگانے کے معاملے پر تینوں جماعتیں متفق نہیں ہیں ہر ایک کی کوشش ہے کہ ان کی پسند کا ایڈمنسٹریٹر لگایا جائے جس سے من پسند فیصلے کرائے جائیں۔ گزشتہ دنوں میئر کراچی وسیم اختر کو کراچی کے مسائل پر چار سال بعد آبدیدہ ہونے کا ڈراما کرنا ہی پڑا یقینا ان کا آبدیدہ ہونا کراچی کے مسائل پر نہیں تھا بلکہ میئر کی مدت کے اختتام پر تھا اگر کراچی کے مسائل پر یہ رونا تھا تو چار سال بعد کیوں؟ آپ کو تو شروع دنوں ہی میں مکمل اختیارات نہ ملنے پر مستعفی ہوجانا چاہیے تھا، پھر اس شہر سے میئر صاحب کی محبت کا یہ عالم ہے کہ ان پر کرپشن کے الزامات ہیں اور محترم بیرون ملک جانے کے لیے عدالت میں اپیل دائر کیے ہوئے ہیں تاکہ لندن پہنچ کر سیاسی پناہ حاصل کی جاسکے۔
بد قسمتی سے برسوں پہلے ہم نے پیپلزپارٹی کے دور اقتدار میں ڈھاکا ڈوبتے دیکھا تھا اور کئی برس بعد آج ہم کراچی ڈوبتا دیکھ رہے ہیں۔ ۱۳ سال سے پیپلزپارٹی سندھ کے اقتدار پر براجمان ہے اور ۳۵ سال سے ایم کیو ایم ہر حکومت کی اتحادی کے طور پر برسر اقتدار رہی ہے، آج شہر کراچی کے ڈوبنے کی وجہ یہ دونوں جماعتیں ہیں جن کی وجہ سے کراچی کے ہر ندی نالے پر غیر قانونی تجاوزات قائم ہیں۔
برسات کی آفت نے عوام کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا ہے لوگوں کو اپنے بچوں کے لیے محفوظ چھت نہیں مل رہی ایسے میں پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف دونوں وزیر اعلیٰ ہائوس اور گورنر ہائوس کے دروازے بند کر کے آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس شہر میں زمین کی کمی نہیں بلکہ ضمیر کی کمی ضرور ہے۔ ہونا تو یہ چاہے تھا کہ فوری طور پر وزیر اعلیٰ اور گورنر ہائوس کے دروزاے بے گھر افراد کے لیے کھول دیے جاتے جن میں بے گھر لوگوں کو پناہ دی جاتی۔ کراچی کے بڑے بڑے اسٹیڈیم ان افراد کی قیام گاہ بن سکتے تھے مگر افسوس کہ اس خوفناک برسات پر بھی سیاست کی گئی کراچی اس وقت ڈوب رہا ہے اور اس شہر کا مینڈیٹ رکھنے والی تینوں جماعتیں پیپلزپارٹی ایم کیو ایم تحریک انصاف تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ کراچی کے عوام اپنے معزز اداروں سے اپیل کر رہے ہیں کہ مصیبت کی اس گھڑی میں ان کا مکمل ساتھ دیا جائے ضمیر فروش حکمرانوں سے ان کو اپنے مسائل کی کوئی اُمید نہیں رہی برسوں پہلے اس قوم نے اپنی آنکھوں کے سامنے ان نااہل حکمرانوں کی وجہ سے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا تھا اب یہ قوم اپنی آنکھوں کے سامنے کراچی ڈوبتا نہیں دیکھنا چاہتی۔