دال ابھی سے جوتیوں میں بٹنے لگی

300

کراچی کے لیے یہ کوئی نئی خبر نہیں کہ کراچی کی بگڑی ہوئی شکل و صورت کے لیے اسے بیوٹی پارلر جانے کی نہ صرف اجازت دیدی گئی ہے بلکہ نکھار اور سنگھار میں اگر اربوں روپے بھی خرچ آئے، دیے جائیں گے بشرطیکہ موجودہ بارشوں کے سبب اس کی صورت شکل پر جو پھٹکار برسنے لگی ہے اسے بہر صورت دور ہوجانا چاہیے۔ حکومت کسی کی بھی رہی ہو، ہر حکمران کے لب پر یہی نعرہ ٔ مستانہ رہا ہے کہ کراچی پورے پاکستان کا مائی باپ ہے لہٰذا اس کو سنوارنے اور نکھارنے کی ہر وقت ضرورت ہے اور جب تک اس کا حسن پاکستان ہی میں نہیں، دنیا میں چمکتا دمکتا رہے گا، یہاں کاروبار ترقی کرتا رہے گا اور جوں جوں اس کی آمدنی میں اضافہ ہوگا، پاکستان کی خوشحالی میں بھی اضافہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ جو بھی حکومت آئی اس نے کراچی کے لیے شاندار پیکیجوں کا اعلان کیا لیکن کراچی ایک ایسا بد قسمت شہر ہے جو کماتا تو اتنا ہے کہ پورا پاکستان کھا سکے لیکن اس کی کمائی کا دو تین فی صد بھی کراچی پر خرچ نہیں کیا جاتا اور اس کے ساتھ کوئی ایک ادارہ بھی ایسا نہیں جو اس کی آمدنی کو شہر سے باہر جانے سے روک سکے۔ وہ کون سا دور ہے جب کسی بھی حکومت نے کھرب ہا کھرب روپوں کے پیکیجوں کا اعلان نہ کیا ہو اور وہ کون سی مرکزی اور صوبائی حکومت ہے جس نے پیکیج میں اعلان کی گئی رقم وصول کرنے کے باوجود کراچی اور اہل کراچی پر خرچ کی ہو۔ ایک ایسا شہر جو بہر لحاظ خود کفیل ہو پھر بھی وہ اپنی آمدنی اپنے اوپر خرچ نہ کر سکتا ہو تو اسے ایک بد قسمت شہر نہ سمجھا جائے تو پھر کیا سمجھا جائے۔
ہمیشہ کی طرح پیکیجوں کے اعلانات کی روایت برقرار رکھتے ہوئے عمران خان نے بھی کراچی کی حالت درست کرنے اور اس کی شکل و صورت کو سنوارنے کے لیے 11 سو ارب روپوں کی ایک خطیر رقم دینے کا اعلان کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر یہ رقم صوبائی یا مرکزی
حکومت کے تحت کراچی پر واقعی خرچ ہوجائے تو حالیہ بارشوں نے کراچی میں جو تباہی و بربادی پھیلائی ہے، اس کا کافی حد تک ازالہ ہو سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی کے لیے مختلف مدات میں اعلانات تو ماضی میں بھی بہت ہوتے رہے ہیں لیکن یا تو ان اعلانات کے مطابق کراچی پر خرچ ہی نہیں کیا گیا یا پھر اعلان کی ہوئی رقم کراچی پر خرچ کرنے کے بجائے ذمے داروں نے اپنے آپ کو بنانے اور سنوارنے میں لگادی۔ اگر کئی دہائیوں سے اعلان کی جانے والی رقوم کو جمع کیا جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ وہ نہایت دیانتداری کے ساتھ طے شدہ مدات پر لگا بھی دی گئی ہے تو پھر ماننا پڑے گا کہ کراچی لندن و پیرس سے بھی کہیں زیادہ خوبصورت اور حسین بن گیا ہے۔
جس طرح کراچی کے ساتھ کئی دہائیوں سے ایسا سنگین مذاق کیا جاتا رہا ہے، 11 سو ارب روپوں کے حالیہ پیکیج کا اعلان بھی اس سے کچھ زیادہ حقیقت نہیں رکھتا۔ یہ بات موجودہ حکومت کی مخالفت یا ہوائی کے طور پر نہیں کہی جا رہی بلکہ ابھی 11 سو ارب روپوں کی اعلان شدہ رقم میں سے 11 پیسے بھی نہ تو صوبائی حکومت کے حوالے ہوئے ہیں اور نہ ہی وفاق کے سپرد، یہ تنازع پیدا ہو گیا کہ اس سلسلے میں کتنی رقم وفاق ادا کرے گا اور کتنی رقم فراہم کرنا صوبے کی ذمے داری ہے۔
معاصر اخبار میں شائع ہونے والی خبریں کراچی پیکیج کے حوالے سے کوئی خوشخبریاں دیتی ہوئی نظر نہیں آ رہیں۔ خبروں کے مطابق سندھ کا کہنا ہے کہ کراچی کے لیے اعلان کیا جانے والا یہ پیکیج وفاق کے حوالے نہیں کیا جا سکتا جبکہ وفاقی حکومت کا یہ کہنا ہے کہ اتنی خطیر رقم کو سندھ کے حوالے کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مراد علی شاہ نے نہایت سخت الفاظ میں یہ بات کہی ہے کہ وفاق میرے سامنے ایسی بات کرکے تو دیکھے، کیا اہل سندھ ایسی بات برداشت کر سکتے ہیں؟۔ ہمیں وفاق کی نیت پر شک ہے اور اس سلسلے میں ہم وفاق پر کسی صورت اعتماد نہیں کر سکتے۔ جس طرح سندھ حکومت وفاق پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں بالکل اسی طرح وفاق کی جانب سے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ وفاقی وزیر شہباز گل اور شبلی فراز کی جانب سے رقم کے سلسلے میں سندھ پر عدم اعتماد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سندھ ناقابل اعتماد ہے اور رقم وفاق کے پاس ہی رہے گی۔ ایک جانب تو اس بات میں رسہ کشی ہو رہی ہے کہ پیکیج کی رقم کس کے حوالے ہوگی اور کس کے نہیں تو دوسری جانب یہ طے ہو کر نہیں دے رہا کہ صوبہ اور وفاق کس تناسب سے 11 سو ارب رپوں کا شریک بنے گا۔ ابھی تک صوبے کی جانب سے جو بات سامنے آئی ہے وہ کچھ یوں ہے کہ 60 فی صد رقم وفاق جبکہ 40 فی صد رقم سندھ فراہم کرے گا لیکن وفاق کی جانب سے بالکل اس کے برعکس کہا جا رہا ہے۔ مختصراً یہی کہا جاسکتا ہے کہ ابھی تو صرف 11 سو ارب روپوں کے پیکیج کا اعلان ہی ہوا ہے تو اتنے تنازعات سامنے آ گئے ہیں، جب کام کا آغاز ہوگا اور مقررہ مدات میں مختص کی گئی رقوم کے مطابق رقم کی فراہمی کا معاملہ درپیش ہوگا تو نہ جانے کتنے اختلافات اور بھی جنم لینا شروع ہو جائیں گے۔ ان ہی ساری باتوں کو سامنے رکھ کر یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ جب آغاز سے بہت پہلے ہی دال جوتیوں میں بٹتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے تو کراچی کے لیے اعلان کردہ پیکیج اپنی اصل شکل و صورت میں شاید ہی کراچی کا نصیب بن سکے۔